کریتیکا شرما
عالمی ٹیکنالوجی کی ترقی میں معیار کا تعین ایک خاموش مگر اہم کردار ادا کرتا ہے۔ کیلیفورنیا میں واقع سینوپسِس کی ریلائبلٹی، اویلیبلٹی اینڈ سروسبلٹی (آراے ایس) آرکیٹکچر ڈائریکٹراور آئی ای ای ای کمپیوٹر سوسائٹی کی صدرایمریٹس، جیوتیکا اٹھاولے اس بات پر زور دیتی ہیں کہ یہ خاص طورسے سیمی کنڈکٹر سے متعلق صنعت کے لیے سچ ثابت ہوتی ہے۔ آئی ای ای ای کمپیوٹر سوسائٹی، سیکھنے کے عمل اور تعاون کی حوصلہ افزائی کے لیے کمپیوٹر انجنیئروں، سائنسدانوں، ماہرین تعلیم اور صنعت کے ماہرین کو یکجا کرتی ہے تاکہ دنیا بھر میں ٹیکنالوجی کی ترقی کو فروغ ملے۔وہ بتاتی ہیں’’عالمی معیارات ہماری بہت سی اہم ترین ٹیکنالوجیوں کو تقویت دیتے ہیں اور سیمی کنڈکٹرس اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔‘‘
اس سال کے شروع میں اٹھاولے نے ممبئی میں واقع امریکی قونصل خانہ میں دوستی ہاؤس میں منعقد ’’سیمی کنڈکٹر راؤنڈ ٹیبل سیریز‘‘ میں شرکت کی جہاں صنعت کاروں اور پالیسی سازوں نے اس بات پر تبادلہ خیال کیا کہ کس طرح امریکہ ۔ہند شراکت داری عالمی سپلائی چینس میں اختراع اور لچک پیدا کر سکتی ہے۔ امریکہ اورہندوستان کے سربراہان مملکت کے اس مشترکہ بیان کے بعد اس اجتماع کی حوصلہ افزائی ہوئی جس نے ٹرسٹ (ٹرانسفارمنگ دی رلیشن سپ یوٹیلائزنگ اسٹریٹیجک ٹیکنالوجیز) پہل کا اعلان کیا تھا۔ ٹرسٹ کا ایک اہم مقصد سیمی کنڈکٹرس سمیت اہم اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز سے متعلق تعاون کو رفتار دینا ہے۔
اٹھاولے کہتی ہیں’’ معیارات سرحد کی کسی تفریق کے بغیر ٹیکنالوجی کے بہاؤ کو پیداوار کے عمل کے ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے تک زیادہ آزادانہ طور پر منتقل ہونے کی سہولت فراہم کرکے مختلف ممالک کے درمیان تعاون کو آسان بناتے ہیں۔‘‘ وہ آئی ای ای ای اسٹینڈرڈز ایسوسی ایشن جیسی عالمی معیار کی تنظیموں کی طرف اشارہ کرتی ہیں جو اختراع کے فروغ کے لیے ضروری باہمی تعاون کے پلیٹ فارم مہیا کرتی ہیں۔
امریکہ اور ہندوستان میں ہم آہنگی پیدا کرنا :
ہندوستان اپنے سیمی کنڈکٹر سے متعلق عزائم کو جیسے جیسے تقویت دے رہا ہے، اٹھاولے کو اس میں زیادہ مواقع نظر آرہے ہیں۔ وہ بتاتی ہیں: ’’امریکہ مشرقی ایشیا پر حد سے زیادہ انحصارکے خطرے کو کم کرنے کے لیے بہت زیادہ سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ سیمی کنڈکٹر کے شعبے میں ہندوستان کے بڑھتے عزائم اس حکمت عملی سے ہم آہنگ ہیں۔‘‘
ہندوستان پہلے ہی سیمی کنڈکٹر ڈیزائن اور اس کی تصدیق کے لیے ایک عالمی مرکز بن چکا ہے۔ اے ایم ڈی، انٹیل اور کوالکوم جیسی چِپ تیار کرنے والی امریکی کمپنیوں کے ہندوستان میں تحقیق اور ترقی کے اہم مراکز ہیں۔ اٹھاولے کہتی ہیں ’’ اسی دوران ہندوستان، امریکی فرموں اور ٹیکنالوجی کی منتقلی کے تعاون سے مصنوعات سازی کی اپنی پہلی سہولیات کی تعمیر کے لیے کوششیں تیز کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ برآمد سے متعلق نظام کو آسان بنانے، دانشورانہ املاک کے تحفظ اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے لیے باہمی کوششیں جاری ہیں۔‘‘
اٹھاولے کا خیال ہے کہ شفافیت اور مشترکہ جمہوری اقدار پر مبنی تعاون سیمی کنڈکٹر سپلائی چین(سامان کی فراہمی کا نظام) کو محفوظ اور متنوع بنانے میں مدد کر سکتا ہے۔ وہ کہتی ہیں’’ ایک شفاف، آزاد اور جمہوری ملک ہونے سے ہندوستان کو فائدہ پہنچ رہا ہے جیسا کہ امریکہ کو ہوتا ہے۔ کھلے معاشروں پر بھروسہ کرنا آسان ہوتا ہے۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ یہ اعتماد دونوں ملکوں کے لیے سیمی کنڈکٹراختراع جیسے اعلیٰ درجے کے شعبوں میں مسابقتی فائدے کا باعث ہے۔
تعاون کو مستحکم کرنے کے لیے وہ حفاظت، معیار کا خیال ، برآمد سے متعلق پالیسیوں اور تنازعات کے حل سے متعلق ہم آہنگ ضابطوں کی وکالت کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں’’ مختلف ممالک کے درمیان اعتماد سازی کے اقدامات ہماری سپلائی چین کو محفوظ بنانے میں مدد کرتے ہیں۔‘‘
اعتماد پر قائم رشتے:
تمام اختراعات کی طرح سیمی کنڈکٹرکو بنانے کا عمل مختلف ممالک کے درمیان اعتماد پر منحصر کرتا ہے۔ اٹھاولے کہتی ہیں’’ دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے اور قریب لانے کے لیے ہمارے لوگوں کے درمیان مزید دوستی اور شراکت داری کی ضرورت ہے۔‘‘ان کا خیال ہے کہ آئی ای ای ای جیسی تنظیمیں اس طرح کے تعاون کو فروغ دینے میں منفرد اہمیت کی حامل ہیں۔
وہ امریکی سیاست میں ہند نژاد امریکیوں کی بڑھتی ہوئی موجودگی کو لوگوں کے درمیان مستحکم ہوتے تعلقات کے ثبوت کے طور پر پیش کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں’’امریکی سیاست کے عروج پر ہند۔ امریکیوں کی جتنی زیادہ تعداد ابھی ہے، وہ امریکی تاریخ میں کبھی مشاہدے میں نہیں آئی۔ ‘‘وہ اسے باہمی اعتماد میں استحکام کی علامت قرار دیتی ہیں۔
اپنے دورہ ہند میں اٹھاولے نے پونے میں ممبئی میں واقع امریکی قونصل خانہ کے زیر اہتمام پروگرام کے ذریعے انجنیئرنگ کے طلبہ سے بھی ملاقات کی۔ ان اجلاس میں رہنمائی، افرادی قوت کی ترقی اور مستقبل کےاختراع کاروں کی تیاری میں تعلیمی اداروں کے کردار پر توجہ مرکوز کی گئی۔
دوستی ہاؤس میں منعقد گول میز کانفرنس میں انہوں نے سیکھا کہ حکومت کی ایجنسیوں، تعلیمی اداروں اور صنعت کے درمیان زبردست تعاون ہے۔ وہ کہتی ہیں’’ سیمی کنڈکٹرس میں تکنیکی جدت طرازی کے ساتھ ساتھ عالمی سپلائی چین میں لچک کو فروغ دینے کی خاطر امریکہ۔ ہند شراکت داری کو مستحکم کرنے میں رجحانات، چیلنج، مواقع اور سفارشات کی تلاش کے لیے معنی خیز بات چیت ہوئی۔‘‘
امریکہ اور ہندوستان جیسے جیسے ٹرسٹ اور کومپیکٹ جیسے فریم ورک کے تحت اسٹریٹجک ٹیکنالوجی تعاون کو مستحکم کرتے جارہے ہیں، اٹھاولے کا خیال ہے کہ کھلے معاشرے، بہتر ماحولیاتی نظام اور تحقیقی نیٹ ورکس جیسی مشترکہ طاقتیں سیمی کنڈکٹر کے دور میں اختراعات کے لیے عالمی رفتار طے کرسکتی ہیں۔