Saturday, August 02, 2025 | 08, 1447 صفر
  • News
  • »
  • عالمی منظر
  • »
  • اس مضمون میں اکشتا کرشن مورتی کے ساتھ نائیسار کی سائنسی و انجینئرنگ جہتوں اور اشتراکات، نیززمین کے بدلتے نظام کو سمجھنے میں اس کے کردار پر گفتگو ملاحظہ کریں۔

اس مضمون میں اکشتا کرشن مورتی کے ساتھ نائیسار کی سائنسی و انجینئرنگ جہتوں اور اشتراکات، نیززمین کے بدلتے نظام کو سمجھنے میں اس کے کردار پر گفتگو ملاحظہ کریں۔

Reported By: Munsif News Bureau | Edited By: Sahjad Mia | Last Updated: Jul 30, 2025 IST     

image

چاروی اروڑا

 
زمین کی تبدیلیوں کے بارے میں بروقت اور درست معلومات زراعت سے لے کر قدرتی آفات سے نمٹنے تک میں نہایت اہمیت کی حامل ہیں۔ اور خلائی ٹیکنالوجی اس میں کلیدی کردار ادا کرسکتی ہے۔ ناسا اور اسرو کا نائیسار مشن ، جو اصل میں ناسا اور اسرو کے ذریعہ زمین کی نگرانی کے لیے تیار کردہ رڈار سیٹلائٹ ہے ، زمین کی نگرانی کے لیے سب سے جدید منصوبوں میں سے ایک ہے۔ ناسا کی جیٹ پروپلشن لیباریٹری(جے پی ایل )میں کام کرنے والی سائنسداں اکشتا کرشن مورتی اس منصوبے کے سائنسی مرحلے کی سربراہی کر رہی ہیں۔ وہ اس پروجیکٹ سے وابستہ کلیدی شخصیات میں سے ایک ہیں۔
 
سائنس ، انجینئرنگ  اور عالمی تعاون  کے امتزاج سےاکشتا  غذائی تحفظ ، آفات سے نمٹنے اور ماحولیاتی انتظام کو بہتر بنانے میں مدد کررہی ہیں جس سے ہندوستان اور  امریکہ دونوں ملکوں میں طبقات  مستفید ہورہے ہیں۔
 

پیش ہیں اکشتا کرشن مورتی کے ساتھ اسپَین کی بات چیت کے اقتباسات:

 
آپ کو ایرو اسپیس انجینئرنگ اور زمین کے مشاہدے کا پیشہ اختیار کرنے کا خیال کیسے آیا، اور یہ سفر آپ کو ناسا کی جیٹ پروپلشن لیبارٹری تک کیسے لے گیا؟
 
ہندوستان  میں بچپن کے دن اور سنہ دو ہزار کی ابتدائی دہائی میں ٹی وی پر خلائی گاڑیوں کے دلکش مناظر  دیکھ کر دل میں یہ خواہش جاگی کہ یہ جانوں کہ زمین سے پرے کیا ہے ؟اور ساتھ ہی اپنی زمین کو بھی بہتر طور پر سمجھنے کی جستجو پیدا ہوئی۔ یہ ننھا سا شعلہ بڑھتے بڑھتے ایک گہری لگن میں  تبدیل ہوگیا کہ ایسی ٹیکنالوجی پر کام کیا جائے جو انسانی علم کی سرحدوں کو وسعت دے۔  یہی وجہ تھی کہ میں نے ہندوستان  میں مکینیکل انجینئرنگ   میں بیچلر ڈگر ی لینے کے بعد  امریکہ میں ایرو اسپیس انجینئرنگ میں ماسٹرس اور پی ایچ ڈی کی۔
 
خلائی مہمات  پر کام کرنے کی خواہش  مجھے  مساچیوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی )لے گئی  جہاں سے میں نے  پی ایچ ڈی کے لیے  خلائی نظاموں اور  سائنسی آلات کی تیاری میں تخصیص کی ۔ یہیں مجھے اپنی ڈوکٹورل تھیسس کے لیے ناسا کی دو خلائی مہمات پر کام کرنے کا شاندار موقع ہاتھ آیا ۔ناسا کی جیٹ پروپلشن لیباریٹری  تک پہنچنے کا یہ سفر  برسوں کی عملی تحقیق ، محنت اور اس خواب کی وجہ سے ممکن ہوا کہ  میں حقیقی دنیا پر اثر انداز ہونے والی مہمات کا حصہ بنوں۔میں مشکور ہوں کہ آج نائیسار جیسی مہم پر کام کرتی ہوں  جو سائنس، انجینئرنگ  اور عالمی اشتراک  کا مجموعہ ہے  جس سے دنیا بھر میں لاکھوں لوگ مستفید ہورہے ہیں۔ 
 
کیا آپ نائیسار مشن کے بارے میں مختصر طور پر بتا سکتی ہیں ؟ یہ بھی بتائیں کہ یہ زمین کے مشاہدے کے لیے کیوں اہم ہے؟ 
 
نائیسار مشن خلا میں اپنی نوعیت کی پہلی رسدگاہ ہے جو زمین کا تفصیلی اور منظم نقشہ تیار کرے گی۔ یہ ایل بینڈ اور ایس بینڈ رڈار  کا استعمال کر کے زمین کی سطح میں  ہونے والی معمولی سے معمولی تبدیلی کو بھی غیر معمولی وضاحت اور تسلسل سے ناپے گا۔ اس مشن کا بنیادی مقصد ان باریک تبدیلیوں پر  بھی نظر رکھنا  ہے جو ماحولیاتی نظام کی خرابی، برفانی چادروں کے ٹوٹنے، آتش فشانی سرگرمی یا زمین کے کھسکنے کی نشاندہی کرتی ہیں۔ یہ مشن اتنے اعداد وشمار فراہم کرے گا کہ جو سائنسدانوں، پالیسی سازوں اور عوام کے لیے انقلابی اہمیت کا حامل ہوگا۔
 
ہندوستان  اور امریکہ میں نائیسار  سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار سے کون سے حقیقی اور عملی فائدے ہوسکتے ہیں؟ 
 
زمین کی سطح میں ہلکی سی تبدیلی کو بھی جانچنے کی صلاحیت نائیسار کو ایک قیمتی اثاثہ بنا دے گی۔ یہ سیٹلائٹ جنگلات، دلدلی علاقوں ، کھیتوں اور نمی کا مشاہدہ کرکے کھانے پینے اور اور پانی کی فراہمی کو بہتر بنانے  میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔ نائیسار سے حاصل ڈیٹا زلزلوں، آتش فشانی دھماکوں ، زمین کے کھسکنے  اور ساحلی کٹاؤ کے عمل کو سمجھنے میں بھی کار آمد ہوگا۔ یہ معلومات حکومتوں کو بنیادی ڈھانچے اور رہائشی منصوبوں کا بہتر انتظام کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوگی۔
 
نائیسار میں امریکہ اور ہندوستان کے اشتراک کے مد نظر آپ کے خیال میں خلائی تحقیق میں ایسے عالمی اشتراکات کی خصوصیات کیا ہیں؟
 
میری نظر میں نائیسار جیسے  عالمی اشتراکات مختلف ملکوں کی مہارتوں کو یکجا کرتے ہیں، سائنسی فکر کو وسعت دیتے ہیں اور خلا سے ملنے والے اعداد وشمار تک رسائی کو بہتر بناتے ہیں۔یہ تعاون طویل عرصے تک جاری رہنے والے تعلقات اور علم و وسائل کی شراکت کو بڑھاتا ہے۔  نائیسار جیسے مشن    ایک مضبوط علمی ماحول بناتے ہیں اور یہ دکھاتے ہیں کہ سائنس اور انجینئرنگ مل کر دنیا کے بڑے مسائل حل کر سکتے ہیں۔
 
ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی کے باوجود ناسا کی جیٹ پروپلشن لیباریٹری خلائی تحقیق کے لیے جدید ترین آلات اور طریقہ کار کی تیاری میں کس طرح اپنی سبقت قائم رکھتی ہے؟
 
میرے خیال میں جدت جے پی ایل کے کام کرنے کی عادت کا حصہ ہے۔ نائیسار جیسے مشن کئی دہائیوں کی تحقیق کا نتیجہ ہیں۔ ہم ہمیشہ تحقیق اور نئی ترقی پر سرمایہ لگاتے ہیں اور مختلف شعبوں میں یونیورسٹیوں، سرکاری اداروں اور نجی کمپنیوں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔ ہم مستقبل کو سامنے رکھ کر ایسی ٹیکنالوجیاں  بناتے ہیں جو دس یا بیس سال بعد  کی مہمات کے لیے بھی  کارآمد ثابت  ہوں ۔
 
زمین کے مشاہدے اور خلائی تحقیق میں ابھرتے ہوئے کون سے رجحانات آپ کو دلچسپ معلوم ہوتے ہیں؟
 
مجھے خاص طور پر زمین کے مشاہدات کو مصنوعی  ذہانت کے ساتھ جوڑ کر بڑے پیمانے پر فوری نتائج فراہم کرنے کا رجحان بہت دلچسپ لگتا ہے۔ خلائی تحقیق کے شعبے میں مجھے خودکار نظاموں کے ساتھ مزید بین  سیارتی مہمات اور چاند اور مریخ کی کھوج کے لیے انسان اور روبوٹ کے اشتراک پر مبنی کاوشیں بے حد پُر جوش کرتی ہیں۔ خلائی تحقیق میں کام کرنے کا یہ ایک نہایت سنسنی  خیز دور ہے۔ 
 

بشکریہ اسپَین میگزین، امریکی سفارت خانہ، نئی دہلی