وزیراعظم نریندر مودی نے لوک سبھا میں آپریشن سندور پر خصوصی بحث کے دوران خطاب کرتے ہوئے واضح کیا کہ کسی بھی عالمی رہنما نے بھارت پر دباؤ نہیں ڈالا کہ وہ یہ آپریشن روکے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ہی بھارت سے اپیل کی کہ وہ کارروائی کو روکے کیونکہ وہ مزید نقصان برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔وزیر اعظم نے بتایا کہ امریکی نائب صدر سے بات چیت کے دوران بھارت نے اپنا مؤقف دوٹوک انداز میں رکھا کہ اگر پاکستان نے دوبارہ حملہ کیا تو بھارت اس سے بھی بڑا حملہ کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بعد بھارت نے دہشت گردی کے خلاف سخت کارروائی کا عزم کیا اور صرف 22 منٹ میں 22ویں دہشت گردانہ حملے کا بدلہ لیا گیا۔
مودی نے کہا کہ آپریشن سندور کے دوران پاکستانی سرزمین پر گہرائی میں واقع دہشت گردی کے ٹھکانے تباہ کیے گئے۔ بھارت نے دنیا پر واضح کر دیا کہ وہ پاکستان کی جوہری دھمکیوں کے آگے نہیں جھکے گا اور دہشت گردی کو پروان چڑھانے والے عناصر اور ان کی پشت پناہی کرنے والی حکومتوں میں کوئی فرق نہیں سمجھا جائے گا۔وزیر اعظم نے کہا کہ آپریشن کے دوران بھارت کی خود انحصاری، دفاعی طاقت، اور ملکی سطح پر تیار کردہ ڈرونز و میزائلوں کی صلاحیت کا مظاہرہ پوری دنیا نے دیکھا۔ پاکستان کی ایئربیسز اور اثاثوں کو بھاری نقصان پہنچا جبکہ پاکستانی افواج کارروائی کو روکنے کی پوزیشن میں نہیں تھیں۔
پی ایم مودی نے کانگریس پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جب پوری دنیا نے بھارت کی حمایت کی، اپوزیشن جماعتیں مسلح افواج کے ساتھ نہیں کھڑی ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارت خود کفالت کی جانب بڑھ رہا ہے جبکہ کانگریس آج بھی پاکستان جیسے ملکوں سے مسائل درآمد کر رہی ہے۔
وزیر داخلہ امت شاہ کا انکشاف
وزیر داخلہ امت شاہ نے ایوان کو بتایا کہ حملے کے بعد ایک ہزار سے زائد افراد سے تفتیش کی گئی، جس کے بعد بشیر اور پرویز کی شناخت ہوئی، جنہوں نے دہشت گردوں کو پناہ دی تھی۔ شاہ نے بتایا کہ آپریشن سندھ 7 مئی کی رات 1:04 سے 1:24 بجے کے درمیان مکمل ہوا، جس میں 100 سے زائد دہشت گرد مارے گئے اور پاکستان کے اندر 100 کلومیٹر تک کارروائی کی گئی۔امت شاہ نے واضح کیا کہ اس آپریشن میں کوئی عام پاکستانی شہری ہلاک نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ لشکر طیبہ کے حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہی حکومت نے مسلح افواج کو جواب دینے کی مکمل آزادی دے دی تھی۔
حکومت کی حکمت عملی پر اپوزیشن کے سوالات
لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی نے کہا کہ حملہ منصوبہ بند اور بھیانک تھا لیکن حکومت کی جانب سے بعد میں پاکستانی حکام کو نرمی کا پیغام دیا گیا، جس سے بھارت کی پوزیشن کمزور ہوئی۔ ڈی ایم کے کی کنی موزی نے اپوزیشن کی حب الوطنی پر سوال اٹھانے کی کوششوں پر تنقید کی۔ جبکہ اکھلیش یادو نے جنگ بندی کے پیچھے بیرونی دباؤ کی موجودگی پر سوالات اٹھائے۔ پرینکا گاندھی نے پہلگام حملے پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ ایک حساس سیاحتی مقام پر سیکیورٹی کی عدم موجودگی نے سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جائے واردات پر نہ طبی سہولت تھی، نہ سیکیورٹی فورسز کی موجودگی۔ ٹی ایم سی، شیو سینا، اور دیگر جماعتوں نے بھی اپنی اپنی آراء پیش کیں، جن میں زیادہ تر نے حکومت سے انٹیلیجنس ناکامیوں پر سوالات کیے اور مستقبل میں اس طرح کے واقعات کی روک تھام پر زور دیا۔
بی جے پی کی حمایت اور تنقید کا جواب
بی جے پی کے نشی کانت دوبے نے حکومت کی پالیسیوں کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ پی او کے (پاکستان مقبوضہ کشمیر) ایک دن بھارت کا حصہ بنے گا۔ انہوں نے دہشت گردی کے خلاف حکومت کے زیرو ٹالرنس رویے کو سراہا۔وزیر اعظم مودی کے تفصیلی جواب کے بعد ایوان کی کارروائی ملتوی کر دی گئی۔ ایک طرف جہاں حکومت نے آپریشن سندھ کو بھارت کی فوجی صلاحیت اور خود انحصاری کا مظہر قرار دیا، وہیں اپوزیشن نے سیکیورٹی ناکامیوں، جنگ بندی پر شکوک و شبہات، اور خارجی دباؤ پر کئی اہم سوالات اٹھائے۔