روسی صدر ولادیمیر پیوتن اور چینی صدر شی جن پنگ کے درمیان اہم ٹیلیفونک رابطہ ہوا، جس میں دونوں رہنماؤں نے مشرق وسطیٰ کی حالیہ صورتحال بالخصوص ایران پر اسرائیل کے حالیہ حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ دونوں ممالک کے صدور نے زور دیا کہ خطے میں کشیدگی کو فوری طور پر کم کرنے اور مسئلے کا پرامن، سفارتی اور سیاسی حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سےمطالبہ
روسی صدارتی دفترکریملن کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ صدر پیوتن اور صدر شی جن پنگ نے مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا اور اسرائیل کے یکطرفہ اور غیر قانونی حملے کو عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا۔ دونوں رہنماؤں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر اس مسئلے پر ہنگامی اجلاس طلب کرے اور خطے میں جنگ بندی کی راہ ہموار کرے۔
امن کیلئےعالمی براداری متحد ہو
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان کے مطابق، صدر شی جن پنگ نے واضح کیا کہ چین ہر قسم کے یکطرفہ فوجی اقدامات کی مخالفت کرتا ہے اور خطے میں امن، استحکام اور خودمختاری کے اصول کا حامی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مشرق وسطیٰ کے مسائل کا حل صرف مذاکرات اور سفارت کاری کے ذریعے ممکن ہے، اور عالمی برادری کو اس مقصد کے لیے متحد ہو کر کام کرنا چاہیے۔
ہر ممکن سفارتی حمایت
صدر پیوٹن نے بھی اسرائیل کی حالیہ کارروائی کو خطے میں مزید تباہی اور عدم استحکام کا پیش خیمہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ روس، ایران کی خودمختاری اور سالمیت کے تحفظ کے لیے ہر ممکن سفارتی حمایت جاری رکھے گا۔چینی صدر شی جن پنگ نےکہا کہ وہ ایران کےمعاملے پر روسی ثالثی کے حق میں ہیں، روسی ثالثی کشیدگی میں کمی میں مددگار ہوسکتی ہے، ایران اسرائیل تنازع میں ممکنہ امریکی مداخلت ایک اور خوفناک کشیدگی کا سبب ہوگی۔صدر پیوٹن کا کہنا تھا کہ ایران نے روس سے فوجی مدد کی درخواست نہیں کی، اسرائیل ایران تنازع میں امریکا فوجی مداخلت سے گریز کرے۔
عالمی طاقتیں جنگ بندی کیلئےموثر اقدامات کریں
دونوں رہنماؤں نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ عالمی طاقتوں اورعلاقائی فریقین کو فوری طور پر جنگ بندی کے لیے موثر اقدامات کرنے چاہئیں اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں مذاکرات کا عمل بحال کیا جائے۔
عالمی برادری کی تشویش
یاد رہے کہ گزشتہ روز اسرائیل نے ایران کے ایک فوجی مرکز پر میزائل حملہ کیا تھا، جس میں متعدد افراد کے جاں بحق اور زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ اس اقدام کے بعد خطے میں جنگ کے بادل مزید گہرے ہو گئے ہیں اور عالمی برادری کی تشویش میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ دونوں صدور نے آئندہ بھی مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر رابطے جاری رکھنے اور باہمی مشاورت کے ذریعے امن کی بحالی کے لیے مشترکہ کوششوں پر اتفاق کیا۔