کیش اسکینڈل معاملے میں سپریم کورٹ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس یشونت ورما سے کہا ہے کہ وہ اپنی درخواست کے ساتھ تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ منسلک کریں، اس کے بعد اس معاملے کی سماعت ہوگی۔ جسٹس ورما نے معاملے کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی تین ججوں کی کمیٹی کی تشکیل پر بھی سوالات اٹھائے ہیں، جس پر عدالت نے ان سے پوچھا کہ اگر انہیں اعتراض ہے تو وہ اس وقت عدالت میں کیوں نہیں آئے۔
تین ججوں کی کمیٹی کی رپورٹ میں جسٹس یشونت ورما کو ان کے گھر سے نقدی ملنے کا قصوروار ٹھہرایا گیا، جس کے خلاف جسٹس ورما نے درخواست دائر کرتے ہوئے رپورٹ کو کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کیا۔ جسٹس یشونت ورما نے سابق چیف جسٹس سنجیو کھنہ کی اس سفارش کی بھی مخالفت کی ہے، جس میں انہوں نے یشونت ورما کو فوری طور پر عہدے سے ہٹانے کا کہا تھا۔
جسٹس یشونت ورما کی درخواست جسٹس دیپانکر دتہ کی سربراہی والی بنچ کے سامنے آئی۔ جسٹس دیپانکر دتہ نے جسٹس ورما سے کہا کہ انہوں نے تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ نہیں دیکھی ہے اور انہیں اپنی درخواست کے ساتھ رپورٹ منسلک کرنی چاہیے تھی۔ انہوں نے کہا کہ پہلے رپورٹ منسلک کریں پھر ان کی درخواست پر سماعت کریں گے۔
جسٹس یشونت ورما کی طرف سے سینئر وکیل کپل سبل پیش ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ میں رپورٹ عدالت کو دوں گا۔ آپ سماعت ملتوی کر سکتے ہیں یا پہلے ان قانونی سوالات کو سن سکتے ہیں جو ہم اٹھانا چاہتے ہیں۔کپل سبل نے جسٹس یشونت ورما کو عہدے سے ہٹانے کی سفارش پر کہا کہ ججوں کو عہدے سے ہٹانے کا عمل آئین اور ججز انکوائری ایکٹ میں دیا گیا ہے، چیف جسٹس کی جانب سے انکوائری کمیٹی کی تشکیل اس کے مطابق نہیں ہے۔
کپل سبل نے کہا کہ ججوں کو ہٹانے کا اختیار آئین کے آرٹیکل 124 کے تحت پارلیمنٹ کو دیا گیا ہے۔ کسی جج کو بدتمیزی یا نااہلی کی بنیاد پر ہٹایا جا سکتا ہے۔ کسی جج کو ہٹانے کے لیے ہندوستان کے قانون یا آئین میں کوئی دوسرا طریقہ نہیں دیا گیا ہے۔ کمیٹی کی رپورٹ سے پہلے جج کے طرز عمل پر پارلیمنٹ میں بھی بات نہیں ہوتی۔
کپل سبل نے کہا کہ لیکن اس معاملے میں ویڈیو پبلک کر دی گئی، لوگ بحث کرنے لگے، ایک کمیٹی بھی بنائی گئی، جو غلط تھا۔ کپل سبل کے دلائل سننے کے بعد جسٹس دیپانکر دتہ نے کہا، تو آپ کو کمیٹی کو بتانا چاہیے تھا کہ آپ تحقیقات نہیں کر سکتے یا آپ کو اس وقت کمیٹی کی تشکیل کے خلاف عدالت میں آنا چاہیے تھا، اب کیوں؟ انہوں نے کہا کہ آپ چیف جسٹس کے خط کا حوالہ دے رہے ہیں۔ وہ بھی ریکارڈ پر نہیں رکھا گیا۔ اس طرح سماعت کیسے ہوگی؟
جسٹس دیپانکر دتہ نے درخواست گزار سے یہ بھی کہا کہ وہ صدر اور وزیر اعظم کو رپورٹ بھیجنے کی بھی مخالفت کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صدر ججوں کی تقرری کرتے ہیں۔ اگر وہ آئینی سربراہ ہیں تو ان کو معلومات دینے کی مخالفت کیوں؟ کپل سبل نے عدالت میں کہا کہ وہ تحقیقاتی رپورٹ اور چیف جسٹس کے خط کو بھی ریکارڈ پر رکھیں گے۔ جسٹس دیپانکر کے سوالوں پر کپل سبل نے کہا کہ وہ صدر کو معلومات دینے کی مخالفت نہیں کر رہے ہیں، لیکن یہ کیوں سمجھا گیا کہ گھر سے ملنے والی رقم جسٹس ورما کی ہے۔ اس کی تحقیقات ہونی چاہیے تھی کہ یہ رقم کس کی ہے۔