ایک طرف پورا ہندوستان 79 واں یوم آزادی منا رہا تھا۔ لوگ ملک میں اتحاد اور بھائی چارے کے حلف اٹھا رہے تھے۔ دوسری طرف آسام کے وزیر اعلیٰ ہمانتا بسوا سرما ملک اور ریاست کے لوگوں کو جہاد کے نام پر خوف زدہ کر رہےتھے اور دو برادریوں کے مابین نفرت کی بیج بو رہے تھے۔ یوم آزادی کے موقع پر انہوں نے ترنگا پرچم لہرایا اور تقریر کی۔ اس دوران انہوں نے دعویٰ کیا کہ آسام کے لوگوں کو لو جہاد سے لے کر زمینی جہاد تک کے مبینہ مسائل کا سامنا ہے۔
آسام کے وزیر اعلیٰ ہمانتا بسوا سرما نے یوم آزادی کے موقع پر اپنی تقریر میں کہا کہ آسام کو اپنی اصل شناخت اور غیر قانونی دراندازی کو سب سے بڑا خطرہ درپیش ہے۔ اس دوران انہوں نے آسام کے مقامی لوگوں سے اپیل کی کہ وہ اپنی زمین، ثقافت اور طرز زندگی کی حفاظت کے لیے متحد ہو جائیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ صرف ایک سیاسی مسئلہ نہیں ہے بلکہ آسام کے وجود کی لڑائی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر ہم خاموش رہے تو اگلی دہائی میں ہم اپنی شناخت، اپنی زمین اور ہر وہ چیز کھو دیں گے جو ہمیں آسامی بناتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر ان مسائل پر کارروائی نہ کی گئی تو مقدس کامکھیا مندر کی پہاڑیوں پر بھی قبضہ ہوسکتا ہے۔
چیف منسٹر ہمنتا بسوا نے پچھلی حکومتوں کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ پچھلی حکومتوں نے پچھلے 78 سالوں میں مسلسل دراندازی کو نظر انداز کیا جس کی وجہ سے آسام کے کئی اضلاع میں آبادیاتی تبدیلیاں آئی ہیں۔ لو جہاد اور لینڈ جہاد کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آسام کو لو جہاد، لینڈ جہاد سمیت کئی دوسرے جہادوں کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سب کا مقصد آسام پر مقامی لوگوں کے کنٹرول کو کمزور کرنا ہے۔آسام کے وزیر اعلیٰ ہمانتا بسوا سرما کی اس تقریر کے بعد یہ سوال ناگزیر ہو گیا ہے کہ جب پورے ہندوستان میں لوگ اتحاد، بھائی چارہ اور باہمی ہم آہنگی برقرار رکھنے کا عہد کر رہے تھے، تو ہمانتا بسوا مختلف قسم کے جہاد کا ذکر کر کے کیا پیغام دینے کی کوشش کر رہے ہیں؟