آسام میں ہزاروں بنگالی نژاد مسلم خاندان بے گھر، بے بس، اور بے آواز مظلوموں کے حق میں کوئی صدا بلند نہیں ہورہی ہے۔ آسام میں جاری سرکاری انہدامی کارروائیوں نے ایک بار پھر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو بے نقاب کر دیا ہے۔ پچھلے ایک مہینے کے دوران ریاست کے مختلف اضلاع میں پانچ بڑے بے دخلی کے آپریشنز کیے گئے، جن میں ہزاروں بنگالی نژاد مسلم خاندانوں کو ان کے گھروں سے زبردستی بے دخل کیا گیا۔ ان کارروائیوں میں کئی مکانات، مساجد اور ڈھانچوں کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا، جبکہ احتجاج کرنے والوں پر پولیس کی فائرنگ بھی ہوئی، جس میں ایک شخص جاں بحق اور کئی زخمی ہو گئے۔۔
آسام کے مختلف اضلاع اور خاص کر مسلم اکثریتی آبادی والے اضلاع میں حکومت کی طرف سے جاری مسلسل انہدامی کاروائیاں ایک انسانی المیہ میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ ۔تازہ ترین اطلاعات کے مطابق، گزشتہ دو مہینوں کے دوران ہزاروں بنگالی نژاد مسلم خاندانوں کو ان کے گھروں سے زبردستی بے دخل کر کے، ان کی رہائش گاہیں، مساجد، مدارس، اسکولز، آنگن واڑی مراکز حتیٰ کہ سرکاری عمارتیں بھی بلڈوزروں سے مٹی کا ڈھیر بنا دی گئی ہیں۔
یہ سب کچھ "غیر قانونی قبضہ" ہٹانے کے نام پر کیا جا رہا ہے، جبکہ متاثرین میں سے بیشتر دہائیوں ( برسوں ) سے ان علاقوں میں مقیم تھے، حکومت کی طرف سے جاری کردی کئی طرح کے شناختی کارڈ رکھتے ہیں ، بچوں کو سرکاری اسکولوں میں بھیجتے تھے اور مختلف فلاحی اسکیموں سے استفادہ بھی کرتے رہے ہیں۔۔
آسام میں مقیم ہوچکے غریب بنگالی نژاد مسلم خاندانوں کا قصور یہ ہے کہ وہ آسان شکار ہیں ،۔۔اُن کے کچے گھر جب بلڈوزروں سے زمین بوس کیے جارہے ہیں تو وہ رونے اور سسکنے کے سوا کچھ نہیں کر رپارہے ہیں ۔ کوئی فریاد سُننے والا نہیں ہے ،۔۔اور نہ کوئی پرسان حال ۔۔وہ بس اللہ کے حضور ہی اپنی دعائیں کررہے ہیں ۔ چھت جیسی بنیادی سہولت چھن جانے کے بعد مائیں، بزرگ، بچے اور بیمار کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ۔اُن کے پاس نہ خیمے ہیں ، نہ راشن، نہ پینے کا صاف پانی۔
عدالتی احکام کی خلاف ورزی، جبرو ظلم کی سرکاری سرپرستی
گواہاٹی ہائی کورٹ نے واضح طور پر ایسے انہدامی اقدامات کو بغیر بازآبادکاری کے غیر قانونی قرار دیا تھا، لیکن حکومت نے عدالتی حکم کو بھی نظر انداز کر دیا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ متاثرین کو صرف 50,000 روپے دیے گئے، جن سے نہ مکان بن سکتا ہے اور نہ ہی زندگی دوبارہ شروع کی جا سکتی ہے۔
"یہ صرف انہدام نہیں، ایک شناخت کو مٹانے کی سازش ہے"
آسام میں ہزاروں بنگالی بولنے والے مسلمانوں کو صرف اس بنیاد پر نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ وہ "بنگلہ دیشی" کہلاتے ہیں — حالانکہ بیشتر افراد گذشتہ 40-50 سالوں سے یہاں مقیم ہیں، اور آسام کے شہری ہیں۔
سی پی آئی (ایم ایل) لبریشن کی حالیہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کے مطابق، 12 جولائی کو گولپارہ ضلع کے آشوڈوبی گاؤں میں 1100 سے زائد گھروں کو محاصرہ کر کے 60 بلڈوزروں کے ذریعے منہدم کیا گیا۔ دو افراد، شیخ منیرالاسلام اور انارالدین شیخ، انہدام کے دوران یا بعد میں دل کا دورہ یا خودکشی کے باعث جاں بحق ہو گئے۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ صرف مکانات نہیں گرائے جا رہے، بلکہ ہماری نسل، ہماری تاریخ، ہماری شناخت کو مٹایا جا رہا ہے۔۔
"کارپوریٹ منصوبوں کی راہ ہموار کرنے کے لیے مسلمانوں کا خون بہایا جا رہا ہے"
ان انہدامی کارروائیوں کے پیچھے کارپوریٹ مفادات کا گہرا سایہ دکھائی دیتا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ ڈھوبری اور گولپارہ میں 3,000 میگا واٹ کے تھرمل پاور پلانٹ کے لیے زمین صاف کی جا رہی ہے، دیما ہساو میں سیمنٹ فیکٹری، کرابی آنگلونگ میں ریلائنس کے گیس پلانٹ اور کوکرا جھار میں اڈانی کے پروجیکٹس کی راہ میں یہی بستیاں آ رہی تھیں۔۔
انسانی حقوق کی پامالی، آواز اٹھانے والوں کی مجرمانہ تصویر کشی
آسام حکومت کی ظالمانہ کاروائیوں کے خلاف آواز اٹھانے والے اور صدائے احتجاج بلند کرنے والے مقامی افراد پر پولیس نے گولیاں چلائیں۔ ۔پائیکان علاقے میں 17 جولائی کو دو افراد مارے گئے۔ سوشل میڈیا پر ویڈیوز میں متاثرہ مرد و خواتین اپنے بچوں سمیت زمین پر بیٹھے روتے اور اللہ سے مدد مانگتے دکھائی دیے۔ کچھ علاقوں میں گاؤں کے چاروں طرف کھائیاں کھود دی گئیں تاکہ کوئی امداد نہ پہنچ سکے۔
آسام میں جنگلات کی زمینوں سے خاص طور پر مسلمانوں کو بے دخل کرنے کی کاروائیاں صرف سیاسی ظلم نہیں، بلکہ ایک ایسی پالیسی کا حصہ ہے جس کا مقصد خاموشی سے ایک پوری برادری کو صفحۂ ہستی سے مٹا دینا ہے ۔۔ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کی انسان دوست آوازیں متحد ہوں، تاکہ مظلوموں کا ہاتھ تھاما جا سکے۔