Saturday, May 03, 2025 | 05, 1446 ذو القعدة
  • News
  • »
  • قومی
  • »
  • وقف معاملے پر سپریم کورٹ میں مرکزی حکومت کا حلف نامہ- کہا قانون کو چیلنج کرنے والی عرضیوں کو خارج کیا جانا چاہئے

وقف معاملے پر سپریم کورٹ میں مرکزی حکومت کا حلف نامہ- کہا قانون کو چیلنج کرنے والی عرضیوں کو خارج کیا جانا چاہئے

Reported By: Munsif TV | Edited By: MD Shahbaz | Last Updated: Apr 26, 2025 IST     

image
وقف ترمیمی قانون کو چیلنج   کرنے والی عرضیوں پر مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں جواب داخل کر دیا ہے۔مرکز نے سپریم کورٹ میں وقف ترمیمی ایکٹ 2025 کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ قانون واضح آئینی بنیادوں پر کھڑا ہے اور کسی بنیادی حق کی خلاف ورزی نہیں کرتا ہے۔ جس کے نتیجے میں سال 2013 سے 2024 کے درمیان وقف اراضیات  میں 116 فیصد اضافہ ہوا، ۔۔اور یہ اضافہ جو مغلیہ دور میں بھی نہیں دیکھا گیا تھا۔۔وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے والے درخواست گزاروں کے جواب میں مرکز نے یہ بیان دیا  ہے۔۔ مرکزی حکومت نے جمعہ کو سپریم کورٹ میں اپنا حلف نامہ داخل کرتے ہوئے اُن درخواستوں کو مسترد کرنے کی اپیل کی جو وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کی آئینی حیثیت کو چیلنج کر رہی ہیں۔ ۔حکومت نے کہا کہ وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کا مقصد وقف اراضی کے انتظام کے سیکولر اور انتظامی پہلوؤں کو منظم کرنا ہے، ۔۔اور مسلمانوں کے بنیادی مذہبی طریقوں کا احترام کیا گیا ہے۔اور ترامیم وقف اراضی کے غلط استعمال کو روکنے اور ان کے انتظام کو بہتر بنانے کے لیے کی گئی ہیں۔
 
اپنے 1,332 صفحات پر مشتمل حلف نامہ میں، مرکز نے عدالت عظمیٰ سے درخواست کی کہ وہ قانون کی صداقت کو چیلنج کرنے والی عرضیوں کو خارج کردے اور جس میں قانون کی بعض دفعات کے بارے میں شرارتی جھوٹی داستانیں گھڑی گئی ہیں۔ حکومت نے کہا کہ وقف ایکٹ ریاست کی قانون سازی کی طاقت کا ایک درست اور قانونی استعمال ہے، جو وقف کے ادارے کو مضبوط کرتا ہے۔ یہ ایکٹ وقف کے انتظام کو آئینی اصولوں سے جوڑتا ہے اور عصر حاضر میں وقف کے مکمل نفاذ میں سہولت فراہم کرتا ہے۔اقلیتی امور کی وزارت کی طرف سے داخل کردہ حلف نامہ میں کہا گیا ہے کہ قانون میں ترمیم صرف جائیدادوں کے انتظام کے حوالے سے سیکولر پہلو کو منظم کرنے کے لیے ہے، اس لیے یہ قانون آئین کے آرٹیکل 25 اور 26 کے تحت دی گئی مذہبی آزادی کی خلاف ورزی نہیں کرتا ہے۔
 
حلف نامہ میں مرکزی حکومت نے ان دلائل کو مسترد کیا ہے کہ قانون میں تبدیلی کی وجہ سے سنٹرل وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈ میں مسلم ممبران اقلیت بن سکتے ہیں۔ حلف نامہ میں کہا گیا ہے کہ سنٹرل وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈ کی تشکیل میں تبدیلی آرٹیکل 26 کی خلاف ورزی نہیں کرتی ہے کیونکہ سنٹرل وقف کونسل میں 22 میں سے کم از کم 18 ممبران اور وقف بورڈ کے 11 میں سے کم از کم 8 ممبر مسلم ممبر رہیں گے۔
 
حکومت نے کہا کہ وقف ترمیمی ایکٹ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ کسی بھی شخص کو عدالت تک رسائی سے منع کیا جائے۔ وقف قانون اس بات کو بھی یقینی بناتا ہے کہ شہریوں کے املاک کے حقوق، مذہبی آزادی اور عوامی خیرات کو متاثر کرنے والے فیصلے انصاف اور قانونی حدود کے اندر کیے جائیں۔ قانون میں کی گئی ترمیم کا مقصد وقف کے انتظام میں عدالتی احتساب، شفافیت اور انصاف کو یقینی بنانا ہے۔