مہاراشٹر سمیت پورے ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت بڑھ رہی ہے۔ آئے روز مسلمانوں کو ان کے مذہب کی وجہ سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے ان کی حفاظت پر سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ اب دوسری برادریوں کے لوگوں کو بھی ہندو تنظیمیں مسلمان ہونے کے شبہ میں نشانہ بنا رہی ہیں۔ انہیں مارا پیٹا جا رہا ہے اور ان کی املاک کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔
مسلمان ہونے کے شک میں جلا دی گئی بیکری:
مہاراشٹر کے پونے ضلع کے گاؤں یاوت سے بھی ایسا ہی ایک معاملہ سامنے آیا ہے جہاں فرقہ وارانہ کشیدگی کے باعث ایک بےگناہ شخص کی زندگی بھر کی کمائی جل کر راکھ ہو گئی۔یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب ایک بیکری کو محض اس شبہ میں آگ لگا دی گئی کہ یہ کسی مسلمان کی ہے۔ جب کہ سچائی یہ تھی کہ بیکری سوپنل ادناتھ کدم نامی اکثریتی برادری سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کی تھی جو مقامی سطح پر کاروبار کر کے اپنے خاندان کو چلاتا ہے۔
کیا ہے پورا معاملہ؟
دراصل پونے ضلع کے یاوت گاؤں میں تین دن پہلے فرقہ وارانہ کشیدگی پھیل گئی تھی۔ یہ اس وقت ہوا جب چھترپتی شیواجی مہاراج کے مجسمے کی مبینہ توڑ پھوڑ کی خبر سامنے آئی۔ اس کے بعد سوشل میڈیا پر ایک نوجوان کی طرف سے کی گئی ایک مبینہ قابل اعتراض پوسٹ وائرل ہوئی جس سے علاقے میں فرقہ وارانہ ماحول مزید بگڑ گیا۔اس سے پہلے گاؤں میں اس واقعہ کے خلاف احتجاج کے لیے ایک ریلی نکالی گئی جو جلد ہی پرتشدد ہجوم میں تبدیل ہو گئی۔ اس دوران مظاہرین ایک مقامی مسجد کی طرف بڑھ رہے تھے۔ راستے میں انہوں نے ایک بیکری دیکھی تو ہجوم میں سے کسی نے آواز دی کہ یہ بیکری کسی مسلمان کی ہے۔ پھر کیا ہوا کہ مشتعل ہجوم نے دکان میں توڑ پھوڑ کی اور اسے آگ لگا دی۔
ہجوم کا شور یہ بیکری کسی مسلمان کی ہے:
متاثرہ بیکری کے مالک سوپنل کدم نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے اپنی آپ بیتی بیان کی اور اس خوفناک منظر کو بیان کیا۔ انہوں نے کہا، بھیڑ میں سے کسی نے اس بات کی تصدیق کیے بغیر شور مچایا کہ یہ بیکری کسی مسلمان کی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میرے ساتھ کچھ مسلم کارکن کام کرتے ہیں جو کہ اتر پردیش سے ہیں۔ ہجوم نے سمجھا کہ مالک بھی مسلمان ہے۔سوپنل نے بتایا کہ پرتشدد ہجوم نے اچانک بیکری پر پتھراؤ شروع کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہجوم مسلمانوں کے سامان سے اس قدر نفرت سے بھرا ہوا تھا کہ انہوں نے ٹین کی چھت پھاڑ دی اور پھر کچھ آتش گیر مواد پھینک دیا جس سے آگ لگ گئی۔ کچھ ہی دیر میں پوری بیکری جل کر راکھ ہو گئی۔
ملازمین اور مالک کا کیا قصور؟
سوپنل نے یہ بھی واضح کیا کہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی قابل اعتراض پوسٹ کا ان کی بیکری یا وہاں کام کرنے والے ملازمین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 'میرے ملازمین یہاں صرف کام کرنے کے لیے آئے ہیں، ان کا ان معاملات سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی انھوں نے کوئی اشتعال انگیز بات کہی ہے۔
'دی آبزرور پوسٹ' میں شائع رپورٹ کے مطابق، واقعے کے بعد گاؤں میں کشیدگی پھیل گئی ہے اور پولیس نے معاملے کی تحقیقات شروع کر دی ہے۔ مقامی انتظامیہ نے لوگوں سے امن برقرار رکھنے کی اپیل کی ہے جبکہ متاثرہ خاندان انصاف کی اپیل کر رہا ہے۔ اس واقعہ سے ایک بار پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ افواہوں اور فرقہ وارانہ منافرت کی بنیاد پر کس حد تک بے گناہ مسلمانوں اور دیگر لوگوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔