کرناٹک کے مشہورمذہبی مقام 'دھرماستھلا' میں مشتبہ اموات کی تحقیقات تیزی سے جاری ہیں۔ ایس آئی ٹی کے سربراہ پرنب موہنتی اور ڈی آئی جی ایم این انوچیتھ کی قیادت میں دھرماستھلا اسرار کی تحقیقات جاری ہیں۔ جمعرات کو اس معاملے کی جانچ میں ایک اہم پیش رفت ہوئی ہے۔ ایک صفائی کارکن کے ذریعہ دکھائے گئے چھٹی جگہ پرآج کھدائی کےدوران ہڈیاں نکالی گئیں۔
لاشیں دفن کرنےصفائی کارکن کا انکشاف
کرناٹک ریاست میں سریکشیترا کے قریب جنگلاتی علاقے میں کبھی کام کرنےوالے ایک صفائی کارکن نے حال ہی میں پولیس میں شکایت درج کراتے ہوئے سنسنی پیدا کر دی کہ اس نے خود کچھ لاشیں دفن کی ہیں۔ صفائی کارکن کی شکایت کے بعد کرناٹک حکومت نے مشتبہ اموات کی تحقیقات کے لیے ایک ایس آئی ٹی تشکیل دی ہے۔ پرنب موہنتی کو ایس آئی ٹی کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔ موہنتی کی قیادت میں ایس آئی ٹی ٹیم اب اس معاملے کی سرگرمی سے تحقیقات کر رہی ہے۔
14 مقامات پرکھدائی
صفائی کارکن نے ایس آئی ٹی ٹیم کو جملہ 14 مقامات دکھائے۔ ایس آئی ٹی 20 کارکنوں کی خدمات حاصل کرکے 14 مقامات پر کھدائی کر رہی ہے۔ ایس آئی ٹی کی جانچ گزشتہ پیر کو شروع ہوئی تھی۔ پانچ مقامات پر کھدائی پہلے ہی مکمل ہو چکی ہے۔ پچھلے ہفتے پہلی جگہ پر ایک نوٹ اور ایک پرس ملا تھا۔ انہیں جانچ کے لیے فرانزک لیب میں بھیج دیا گیا۔ اس کے بعد کے چار مقامات پر کوئی سراغ نہیں ملا۔
کھدائیوں میں ہڈیاں ملی
اسی سلسلے میں ایس آئی ٹی کے عہدیداروں نے آج صفائی کارکن کے ذریعہ دکھائے گئے چھٹے مقام پر کھدائی کی۔ ان کھدائیوں میں بڑی تعداد میں ہڈیاں ملی ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ یہ پہلا ثبوت ہے جو ایس آئی ٹی حکام کو اب تک مشتبہ اموات سے متعلق ملا ہے۔ ایس آئی ٹی کے اہلکار آٹھ دیگر مقامات پر بھی کھدائی کریں گے۔ مزید شواہد ملنے کا امکان ہے۔ صفائی کارکن کا کہنا ہے کہ اس نے جو 14 جگہیں دکھائیں ان میں سے 9 سے 13 مقامات پرانسانی باقیات ملنے کا امکان ہے۔
خواتین اورلڑکیوں قتل،اورلاشیں دفن
حکام نے نیتراوتی ندی کے نہانے والے تالاب کے دوسری طرف کے علاقے سے اپنی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ دھرماستھلا جنوبی کنڑ ضلع کا ایک مشہور شیو مندر ہے۔ کرناٹک اور پڑوسی ریاستوں سے بڑی تعداد میں عقیدت مند یہاں آتے ہیں۔ ایک صفائی کارکن جس نے ماضی میں وہاں کام کیا تھا اور چھوڑ دیا تھا۔ اس نے سنسنی خیز حقائق کا انکشاف کیا ہے۔ اس نے پولیس کو بتایا کہ وہاں 1998 سے 2014 کے درمیان کئی خواتین اور نوجوان لڑکیوں کو قتل کیا گیا اور اس نے ان کی لاشیں خود دفن کیں۔
جنسی زیادتی کے بعد قتل اورلاشوں کوٹھیکانے لگانے کا شبہ
ان کا کہنا تھا کہ یہ تمام افراد کی لاشیں تھیں جو مشکوک حالات میں غائب ہو گئے تھے اور ان کی موت جنسی زیادتی کے بعد ہوئی تھی۔ ان کے الفاظ نے ریاست کرناٹک میں صدمہ پہنچا دیا۔ صفائی کارکن نے بتایا کہ دسمبر 2014 میں، ان کے خاندان کے کچھ لوگوں نے انہیں جنسی طور پر ہراساں کرنے کے بعد وہ روپوش ہو گئے تھے۔ اس عمل میں لاشوں کو دفنانے کا حکم کس نے دیا؟ وہ کس کی مدد سے لے کر گئے؟ حکام کارکن سے دیگر تفصیلات کے بارے میں پوچھ گچھ کر رہے ہیں۔