Saturday, June 14, 2025 | 18, 1446 ذو الحجة
  • News
  • »
  • عالمی منظر
  • »
  • ڈاکٹر جان میک مولن لیمیری کی تحقیق :کس طرح انتہائی موسمی و ماحولیاتی حالات میں خلا بازوں کو طویل مدتی خلائی پروازوں کے لیے تیار کرنے میں مدد دیتی ہے۔

ڈاکٹر جان میک مولن لیمیری کی تحقیق :کس طرح انتہائی موسمی و ماحولیاتی حالات میں خلا بازوں کو طویل مدتی خلائی پروازوں کے لیے تیار کرنے میں مدد دیتی ہے۔

Reported By: Munsif TV | Edited By: Sahjad Mia | Last Updated: Jun 13, 2025 IST     

image
امریکی مقرر ڈاکٹر جان میک مولن لیمیری  اس مضمون میں بتاتے ہیں کہ ان کی تحقیق کس طرح انتہائی موسمی و ماحولیاتی حالات میں خلا بازوں کو طویل مدتی خلائی پروازوں کے لیے تیار کرنے میں مدد دیتی ہے۔
 

کریتیکا شرما

خلائے بعید میں مہینوں تک جاری رہنے والی مہمات کے دوران خلابازوں کو کس طرح صحت مند رکھا جاسکتا ہے؟ خلابازوں کی صحت امریکہ اور ہندوستان جیسے خلائی سفر  پر مہمات بھیجنے والے ملکوں کے لیے ایک ایسی ترجیح بنتی جارہی ہے جس پر کافی توجہ دی جارہی ہے۔ ایسا اس لیے بھی ضروری ہے کیوں کہ ممالک اب زیادہ دورانیے والے اور پیچیدہ مہمات  کا خیال پال رہے ہیں۔
 
طویل مدتی خلائی سفر کے طبّی چیلنجوں پر تحقیق کرنے والے ڈاکٹر جان میک مولن امریکی محکمہ خارجہ کے اسپیکر پروگرام کے تحت فروری 2025 میں ہندوستان تشریف لائے اور موضوع سے متعلق اپنی مہارتیں شیئر کیں۔ وہ یونیورسٹی آف کولوراڈو کے اسکول آف میڈیسین  میں ہنگامی ادویہ کے پروفیسراور  بیابان و ماحولیاتی میڈیسین  کے شعبے کے سربراہ ہیں۔ 
 
اپنے دورۂ  ہند کے دوران ڈاکٹر لیمیری نے اپنے ساتھیوں، طلبہ، انجنیئروں، ڈاکٹروں اور صحت عامّہ کے پیشہ وروں  سے ملاقات کی۔ چنئی میں انہوں نے صحت کے بدلتے رجحانات سمیت متعدد موضوعات پر بات کی۔ وہ  جے پور ادبی میلے میں ایک پینل  کا حصہ تھے اور انہوں نے خطاب بھی کیا تھا۔ انہو ں نے ہریانہ میں او پی جندل گلوبل یونیورسٹی کے اسکول آف پبلک ہیلتھ جیسے اداروں کا دورہ کیا۔ یونیورسٹی میں اپنے لیکچر کے دوران ڈاکٹر لیمیری نے خلائی تحقیق اور عالمی صحت کے درمیان گہرے تعلقات کا جائزہ لیا۔
 
فروری 2025 میں امریکہ اور ہندوستان کے رہنماؤں کے مشترکہ بیان میں خلائی تعاون کو اجاگر کیا گیا، جس میں خلائی تحقیق میں مزید اشتراک پر زور دیا گیا۔ اس میں طویل مدتی انسانی خلائی پرواز مشن، خلائی پرواز کی سلامتی اور سیّاروں کے تحفظ سمیت ابھرتے ہوئے شعبوں میں مہارت کے تبادلے اور پیشہ ورانہ روابط شامل ہیں۔
 
ڈاکٹر لیمیری کی تحقیق عملے کی حفاظت بہتر بنانے اور مشن کی تیاری کو مؤثر بنانے کے لیے امریکی کوششوں میں معاون ہے۔ طویل مدتی خلائی مہمات کے طبّی چیلنجوں سے نمٹنے کا ان کا کام نہ صرف امریکی خلائی پروگرام کی آئندہ مہمات میں مدد کرنے صلاحیت کو تقویت بخشتا ہے ، بلکہ طبّی تفہیم کے دائرے کو بھی وسیع کرتا ہے جس سے زمین پر خلائی پرواز اور صحت کے نظام دونوں کو فائدہ پہنچتا ہے۔
 

خلابازوں کے لیے صحت سے متعلق حل:
 

ڈاکٹر لیمیری کے کام کا ایک اہم پہلو خلابازوں کے لیے صحت سے متعلق حل تیار کرنا ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’میں  انسانی تحقیق سے متعلق پروگرام سے وابستہ معالج ہوں۔ ہمارا کام یہ دیکھنا ہے کہ طویل مدتی خلائی مہمات کے دوران عملے کی دیکھ بھال کیسے کی جائے اور طبّی خطرات کی تفہیم کیسے کی  جائے۔‘‘دستیاب بہترین تکنیک کو خلا میں استعمال کے لیے موزوں سمجھ کر چننا ہی ان کی مہارت کا میدان ہے۔ طویل مدتی مہمات کی تیاری میں نہایت احتیاط سے فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ ڈاکٹر لیمیری کہتے ہیں ’’ہمیں بہت سوچ سمجھ کر کام کرنا ہوتا ہے، کیونکہ خلائی پرواز میں آپ ہر چیز ساتھ نہیں لے جا سکتے۔‘‘ ہر فیصلہ ٹیکنالوجی، دستیاب وسائل اور ممکنہ خطرات کے درمیان توازن قائم کرنے کا متقاضی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ٹیموں کو یہ انتخاب کرنا پڑ سکتا ہے کہ جراثیم کُش ادویات  لے جائیں یا الٹراساؤنڈ مشین، پانی صاف کرنے کی مشین رکھیں یا ٹریڈمل۔ وہ وضاحت کرتے ہیں ’’ہم یہ فیصلے صرف طبّی نقطۂ نظر سے نہیں کرتے، بلکہ خلائی گاڑی کی مجموعی انجنیئرنگ ترجیحات کو بھی مدِنظر رکھتے ہیں۔‘‘
 
ان فیصلوں کی حمایت کے لیے انجنیئروں کی ایک ٹیم ’’امکانی خطرے کا تجزیہ کرنے والا انجن‘‘ نامی آلے کے ساتھ کام کرتی ہے۔ ڈاکٹر لیمیری کی ٹیم اس آلے کا استعمال یہ جائزہ لینے کے لیے کرتی ہے کہ طبّی  فیصلے خلابازوں کی خلائی سیر یا کمپیوٹر پر کام کرنے جیسے اہم کاموں کو انجام دینے کی صلاحیت کو کس طرح متاثر کرتے ہیں۔ وہ وضاحت کرتے ہیں کہ یہ آلہ مختلف منظرناموں کو چلانے میں مدد دیتا ہے، جن میں طبّی  خطرات کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ یہ خلا میں خلابازوں کو درپیش 120 مختلف حالات کا ماڈل تیار کر سکتا ہے۔ یہ ماڈل ٹیم کو یہ فیصلہ کرنے میں مدد دیتا ہے کہ کون سا طبّی سامان لے جانا سب سے زیادہ اہم ہے۔
 

مصنوعی ذہانت ہی مستقبل ہے:

جیسے جیسے خلائی تحقیق انسانی صلاحیت کی حدود کو وسعت دے رہی ہے، خلابازوں کی صحت کے میدان میں مصنوعی ذہانت (اے آئی) کا کردار تیزی سے اہم ہوتا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر لیمیری کہتے ہیں ’’میرا خیال ہے کہ اے آئی پرواز کے دوران عملے کے طبّی فیصلوں میں مدد دے سکتی ہے۔ یہ ان کی تشخیص اور علاج کی صلاحیت کو بڑھائے گی اور انہیں زیادہ خودمختاری فراہم کرے گی۔‘‘
 
وہ اس بات کو نمایاں کرتے ہیں کہ کس طرح مصنوعی ذہانت کو خلائی مہمات سے حاصل ہونے والے وسیع ڈیٹا کے ساتھ مربوط کیا جا سکتا ہے، جس میں عملے کی اہم جسمانی علامات، طبّی  تاریخ، ماحولیاتی حالات اور دستیاب وسائل شامل ہیں۔ وہ وضاحت کرتے ہیں ’’جب ہم اس بات پر غور کرتے ہیں کہ ڈیٹا کس طرح کیپسول اور عملے کے پہننے کے قابل آلات، ان کے طبّی پس منظر، خلائی گاڑی کے ماحولیاتی حالات، اور سامان کی دستیابی اور موجودگی کے احساس کے درمیان مربوط ہوتا ہے، تو نتیجے میں ہمارے پاس ایک مضبوط اور خلا پر مرکوز طبّی ڈیٹا بیس تیار ہوتا ہے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت مجازی اور اضافی حقیقت  کے ذریعے، خاص طور پر ہنگامی حالات کے لیے، طبّی تربیت فراہم کر سکتی ہے۔
 

سخت حالات کی نقل تیار کرنا:

ایک اور اہم ترجیح خلابازوں کو انتہائی سخت حالات، خاص طور پر شدید سرد موسم میں کام کرنے کی تربیت دینا ہے۔ یونیورسٹی آف کولوراڈو میں ڈاکٹر لیمیری کرایوسفئیر آسٹیر میڈیسن پلیٹ فارم (سی اے ایم پی) کی سربراہی کرتے ہیں، جو چاند یا مریخ جیسے طویل مدتی مہمات کے لیے خلابازوں کی صحت کی دیکھ بھال پر توجہ مرکوز  کرتا ہے۔ یہ مشن خلائی تحقیق میں امریکہ کی مسابقتی برتری کو برقرار رکھنے کے لیے نہایت اہم ہے۔
سی اے ایم پی کولوراڈو کے شہر ڈینور میں واقع امریکی نیشنل سائنس فاؤنڈیشن (این ایس ایف) کی آئس کور سہولت کے ساتھ تعاون کرتا ہے، جو سائنسی تحقیق کے لیے قطبی برف کی پرتیں محفوظ کرتاہے۔ سرد ماحول سے متعلق تحقیق کے لیے مالی معاونت امریکی محکمہ دفاع فراہم کرتا ہے، جبکہ این ایس ایف اس سہولت کو ایک اہم سائنسی وسیلہ سمجھتے ہوئے اس کی مدد کرتا ہے۔
 
سی اے ایم پی میں ڈاکٹر لیمیری کا کام امریکی خلابازوں کو خلا کے شدید سرد ماحول کے لیے تیار کرنے میں مدد دیتا ہے، وہ زمین پر ویسے ہی حالات پیدا کر کے ان کی مشق کرواتے ہیں۔ وہ اپنی  ٹیم کے ساتھ طبّی عملے اور فیلڈ میڈکس (ہنگامی طبی امداد فراہم کرنے والا عملہ)کو تربیت دینے کے لیے انہیں فرضی طور پر ٹھنڈے ماحول کا تجربہ کرواتے ہیں۔ ڈاکٹر لیمیری بتاتے ہیں ’’ہم انہیں ایک معیاری کِٹ(اوزاروں یا ساز و سامان کا سیٹ) دیتے ہیں اور کہتے ہیں، آپ کے پاس احیائے قلب کی فرضی مشقوں کی  12  صورتیں  ہیں۔‘‘ ان مشقوں میں ہائپوتھرمیا (جسم کا درجہ حرارت خطرنا ک حد تک گر جانا )کا علاج، پٹیاں باندھنا اور زخم سے خون کے بہنے کو روکنے کے لیے شریان بندی کرنا شامل ہوتا ہے۔ اس تربیت کا مقصد یہ جانچنا ہوتا ہے کہ شدید سردی میں وہ کس حد تک تیزی اور درستگی کے ساتھ ردعمل کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔ 
 
ان فرضی مشقوں کے علاوہ ٹیم خلابازوں کی ذہنی صلاحیت اور ہاتھوں کی باریک مہارت کی بھی جانچ کرتی ہے۔ ڈاکٹر لیمیری بتاتے ہیں ’’ذہنی صلاحیت کی ایک مثال یہ ہے کہ 100 سے سات سات کم کرتے ہوئے الٹی گنتی کی جائے۔ ہمارا اندازہ ہے کہ آپ یہ کام کمرے کے درجہ حرارت میں زیادہ تیزی سے کر سکتے ہیں، بہ نسبت شدید سرد ماحول کے۔‘‘ اسی طرح وہ ہاتھوں کی باریک مہارت، جیسے بولٹ کسنے جیسے کام بھی جانچتے ہیں، کیونکہ سردی ان حرکات کو متاثر کرتی ہے۔ یہ مشقیں ٹیم کو یہ سمجھنے میں مدد دیتی ہیں کہ سرد موسم انسانی کارکردگی پر کیا اثر ڈالتا ہے۔ یہی تحقیق خلابازوں کی تربیت کو مؤثر بنانے اور انہیں خلائی مہمات کی دشواریوں  کے لیے بہتر طور پر تیار کرنے میں مدد دیتی ہے۔

بشکریہ اسپَین میگزین، امریکی سفارت خانہ، نئی دہلی