میرے پیارے ہم وطنوں،
نمسکار!
یومِ آزادی کی ما قبل شام آپ سب کو میں دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتی ہوں۔ ہم سب کے لیے یہ فخر کی بات ہے کہ یومِ آزادی اور یومِ جمہوریہ ہم سب بھارتی جوش و خروش کے ساتھ مناتے ہیں۔ یہ دن ہمیں بھارتی ہونے کے وقار کی خاص یاد دلاتے ہیں۔
پندرہ اگست کی تاریخ ہماری اجتماعی یادداشت میں گہرائی سے پیوست ہے۔نوآبادیاتی حکومت کے طویل دور میں ملک کے باشندوں کی بے شمار نسلوں نے یہ خواب دیکھا تھا کہ ایک دن ملک آزاد ہوگا۔ملک کے ہر گوشے میں رہنے والے -مرد و خواتین، بزرگ اور جوان- غیر ملکی حکومت کی بیڑیوں کو توڑ پھینکنے کے لیے بے تاب تھے۔ ان کی جدوجہد میں مایوسی نہیں بلکہ مضبوط امید کا جذبہ تھا۔ امید کا وہی جذبہ، آزادی کے بعد ہماری ترقی کو توانائی دیتا رہا ہے۔ کل، جب ہم اپنے ترنگے کو سلامی پیش کررہے ہوں گے، تب ہم ان تمام مجاہدین آزادی کو بھی خراجِ عقیدت پیش کریں گے جن کی قربانیوں کے دم پر، 78 سال پہلے ،15 اگست کے دن ،بھارت نے آزادی حاصل کی تھی۔
اپنی آزادی دوبارہ حاصل کرنے کے بعد، ہم ایک ایسے جمہوری نظام کے راستے پر آگے بڑھے، جس میں تمام بالغ شہریوں کو ووٹ دینے کا حق حاصل تھا۔ دوسرے الفاظ میں کہیں تو، ہم بھارت کے عوام نے، اپنی قسمت کو سنوارنے کا اختیار خود اپنے آپ کو عطا کیا۔ دنیا کے کئی جمہوری نظاموں میں جنس، مذہب اور دیگر بنیادوں پر لوگوں کے حق رائے دہی پر پابندیاں عائد ہوتی تھیں، لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا۔ چیلنجوں کے باوجود، بھارت کے عوام نے جمہوریت کو کامیابی کے ساتھ اپنایا۔ جمہوریت کو اپنانا ہمارے قدیم جمہوری اقدار کا فطری اظہار تھا۔ بھارت کی سرزمین، دنیا کی قدیم ترین جمہوری ریاستوں کی سرزمین رہی ہے۔ اس لیے اسے جمہوریت کی ماں کہنا بالکل درست ہے۔ہمارے ذریعے اپنائے گئے آئین کی بنیاد پر ہماری جمہوریت کا شاندار ڈھانچہ تعمیر ہوا۔ ہم نے جمہوری بنیاد پر ایسی ادارہ جاتی ساخت قائم کی جس سے جمہوری طرزِ عمل کو مضبوطی ملی۔ ہمارے لیے ہمارا آئین اور ہماری جمہوریت سب سے مقدم ہیں۔
ماضی پر نظر ڈالتے ہوئے، ہمیں ملک کی تقسیم سے پیدا ہونے والے درد کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ آج ہم نے تقسیم کی ہولناکیوں کی یاد کا دن منایا۔ تقسیم کے باعث خوفناک تشدد دیکھنے میں آیا اور لاکھوں لوگ بے گھر ہونے پر مجبور کئے گئے۔ آج ہم تاریخ کی غلطیوں کے شکار ہوئے لوگوں کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔
پیارے ہم وطنوں،
ہمارے آئین میں ایسے چار اقدار کا ذکر ہے جو ہماری جمہوریت کو مضبوط رکھنے والے چار ستون ہیں۔ یہ اقدار انصاف، آزادی، مساوات اور بھائی چارہ ہیں۔ یہ ہماری تہذیب کے ایسے اصول ہیں، جنہیں ہم نے جہدوجہد آزادی کے دوران دوبارہ زندہ کیا۔ میرا ماننا ہے کہ ان تمام اقدار کی بنیاد میں فرد کی عزت و وقار کا نظریہ موجود ہے۔ ہر شخص برابر ہے اور ہر ایک کو یہ حق ہے کہ اس کے ساتھ عزت و احترام کا برتاؤ ہو۔صحت کی خدمات اور تعلیمی سہولیات تک سب کی یکساں رسائی ہونی چاہیے۔ سب کو مساوی مواقع ملنے چاہئیں، جو لوگ روایتی نظام کی وجہ سے محروم رہ گئے تھے، انہیں مدد کی ضرورت تھی۔
ان اصولوں کو مقدم رکھتے ہوئے، ہم نے 1947 میں ایک نیا سفر شروع کیا۔ غیر ملکی حکومت کی طویل مدت کار کے بعد آزادی کے وقت، بھارت شدید غربت کا شکار تھا، لیکن تب سے اب تک کے 78برسوں میں، ہم نے تمام شعبوں میں غیر معمولی ترقی کی ہے۔ بھارت نے ،خود انحصار ملک بننے کی راہ پر کافی طویل فاصلہ طے کر لیا ہے اور مضبوط خوداعتمادی کے ساتھ آگے بڑھتا جارہا ہے۔
اقتصادی شعبے میں، ہماری حصولیابیاں واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ گزشتہ مالی سال میں 6.5 فیصد کی مجموعی گھریلو پیداوار کی شرح نمو کے ساتھ بھارت، دنیا کی سب سے تیزی سے بڑھتی ہوئی بڑی معیشتوں میں شامل ہے۔ عالمی معیشت میں موجود مسائل کے باوجود، گھریلو مانگ میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ مہنگائی قابو میں ہے۔ برآمدات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ تمام اہم اشاریے ،معیشت کی مضبوط صورتحال کی عکاسی کر رہے ہیں۔ یہ ہمارے محنتی کارکنوں اور کسان بھائی-بہنوں کی محنت و لگن کے ساتھ ساتھ، دانشمندانہ اصلاحات اور مؤثر اقتصادی انتظام کا بھی نتیجہ ہے۔
اچھی حکمرانی کے ذریعے، بڑی تعداد میں، لوگوں کو غربت سے نکالا گیا ہے۔ حکومت غریبوں کے لیے متعدد فلاحی منصوبے چلا رہی ہے۔ جو لوگ خط افلاس سے اوپر تو آگئے ہیں، مگر مضبوط پوزیشن میں نہیں ہیں، ان کو بھی ایسی اسکیموں کا تحفظ حاصل ہے، تاکہ وہ دوبارہ غربت کی لکیر سے نیچے نہ چلے جائیں۔ یہ فلاحی کوششیں سماجی خدمات پر بڑھتے ہوئے اخراجات میں عکاس ہوتی ہیں۔ آمدنی کی نا برابری کم ہو رہی ہے ۔ علاقائی عدم مساوات بھی کم ہو رہی ہے،جو ریاستیں اور علاقے پہلے کمزور اقتصادی کارکردگی کے لیے جانے جاتے تھے، وہ اب اپنی حقیقی صلاحیت کا مظاہرہ کررہے ہیں اور سرکردہ ریاستوں کے ساتھ برابری کرنے کی سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔
ہمارے سرکردہ کاروباری افراد، چھوٹے اور درمیانے درجے کے صنعتکاروں اور تاجروں نے ہمیشہ کچھ کر گزرنےکا جذبہ ظاہر کیا ہے۔ خوشحالی لانے کی راہ میں آنے والی رکاوٹوں کو دور کرنے کی ضرورت تھی۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران بنیادی ڈھانچے میں ہونے والی ترقی میں یہ واضح طور پر نظر آتی ہے۔ہم نے بھارت مالا پروجیکٹ کے تحت قومی شاہراہ نیٹ ورک کو وسیع اور مضبوط کیا ہے۔ ریلوے نے بھی اختراع کو فروغ دیا ہے اور جدید ترین ٹیکنالوجی سے آراستہ نئی قسم کی ریل گاڑیوں اور ڈبوں کا استعمال کیا جانے لگاہے۔ وادیٔ کشمیر میں ریل- رابطے کا آغاز ایک اہم حصولیابی ہے۔ بھارت کے باقی حصوں کے ساتھ وادی کا ریل –رابطہ، اس علاقے میں تجارت اور سیاحت کو فروغ دے گا اور نئی معاشی امکانات کے دروازے کھولے گا۔ کشمیر میں انجینئرنگ کی یہ غیر معمولی کامیابی ہمارے ملک کے لیے ایک تاریخی سنگ میل ہے۔
ملک میں شہری کاری تیز رفتار سے ہو رہی ہے۔ اس لیے شہروں کی صورتحال بہتر بنانے پر حکومت خصوصی توجہ دے رہی ہے۔ شہری نقل و حمل کے اہم شعبے پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے حکومت نے میٹرو ریل سہولیات کو توسیع دی ہے۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران، میٹرو ریل- خدمات کی سہولت سے آراستہ شہروں کی تعداد کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ شہروں کی ترقی اور شہری تبدیلی کے لیے اٹل مشن، یعنی ‘امرِت’نے یہ یقینی بنایا ہے کہ زیادہ سے زیادہ گھروں میں نل کے ذریعے پانی کی قابل اعتماد سپلائی ہو اور سیوریج کنکشن کی سہولت دستیاب ہو۔
حکومت یہ مانتی ہے کہ زندگی کی بنیادی سہولیات پر شہریوں کا حق بنتا ہے۔ ‘جل جیون مشن’کے تحت دیہی گھروں میں نل کے ذریعے پانی پہنچانے میں پیش رفت ہو رہی ہے۔
اپنی نوعیت کی دنیا کی سب سے بڑی صحت- خدمات کی اسکیم، ‘آیوشمان بھارت’کے تحت مختلف اقدامات کیے گئے ہیں۔ ان کوششوں کے نتیجے میں صحت کی خدمات کے شعبے میں ہم انقلابی تبدیلیوں کا مشاہدہ کررہے ہیں۔ اس اسکیم کے تحت اب تک 55 کروڑ سے زیادہ لوگوں کوسُرکشا -کوچ فراہم کیا جا چکا ہے۔ حکومت نے 70 سال یا اس سے زیادہ عمر کے تمام بزرگ شہریوں کو اس اسکیم کی سہولت فراہم کرا دی ہے، خواہ ان کی آمدنی کتنی بھی ہو۔ صحت کی خدمات تک رسائی سے متعلق عدم مساوات دور ہونے سے،غریب اور نچلے متوسط طبقے کے لوگوں کو بھی بہترین ممکنہ صحت کی سہولیات میسر ہو رہی ہیں۔
اس ڈیجیٹل دور میں، یہ فطری ہے ،کہ بھارت میں سب سے زیادہ ترقی معلوماتی ٹیکنالوجی کے شعبے میں ہوئی ہے۔ تقریباً تمام گاؤں میں 4جی موبائل کنیکٹیویٹی دستیاب ہے۔ باقی رہ گئے چند ہزار گاؤں میں بھی یہ سہولت جلد ہی پہنچا دی جائے گی۔ اس سے ڈیجیٹل ادائیگی کی ٹیکنالوجی کو بڑے پیمانے پر اپنانا ممکن ہوسکا ہے۔ ڈیجیٹل ادائیگی کے شعبے میں بھارت ، قلیل وقت میں ہی دنیا کی قیادت کرنے والا ملک بن گیا ہے۔ اس سے ڈائریکٹ بینیفٹ ٹرانسفر کو بھی فروغ ملا ہے اور ہدف شدہ مستحقین تک فلاحی ادائیگیاں بغیر کسی رکاوٹ اور لیکیج کی رسائی یقینی ہورہی ہے۔ دنیا میں ہونے والے کل ڈیجیٹل لین دین میں سے نصف سے زیادہ لین دین بھارت میں ہوتے ہیں۔ ایسی تبدیلیوں سے ایک متحرک ڈیجیٹل معیشت کی تشکیل ہوئی ہے، جس کا حصہ ملک کی مجموعی گھریلو پیداوار میں سال بہ سال بڑھ رہا ہے۔
مصنوعی ذہانت ، تکنیکی پیشرفت کا اگلا مرحلہ ہے جو ہمارے زندگی میں اپنا مقام بنا چکی ہے۔ حکومت نے ملک کی اے آئی صلاحیتوں کو مضبوط کرنے کے لیے انڈیا –اے آئی مشن شروع کیا ہے۔ اس مشن کے تحت ایسے ماڈل تیار کیے جائیں گے، جو بھارت کی مخصوص ضروریات کو پورا کریں گے۔ ہماری خواہش ہے کہ سال 2047 تک بھارت ایک گلوبل- اے آئی- ہب بن جائے۔ اس سمت میں عام لوگوں کے لیے ٹیکنالوجی کی ترقی کا بہترین استعمال اور انتظامی امور میں اصلاحات کر کے ان کی زندگی کو بہتر بنانے پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔
عام لوگوں کی زندگی کو بہتر بنانے اورکاروبار کو آسان بنانے کے ساتھ ساتھ زندگی کو آسان بنانے پر بھی برابر زور دیا جا رہا ہے۔ ترقی تبھی معنی خیز ہوتی ہے، جب حاشیے پر رہنے والے لوگوں تک مدد پہنچے اور ان کے لیے نئے مواقع میسر ہوں۔ اس کے علاوہ، ہم ہر ممکن شعبے میں اپنی خود انحصاری بڑھا رہے ہیں۔ اس سے ہمارا اعتماد بڑھا ہے اور ترقی یافتہ بھارت بننے کی ہماری سفر کی رفتار تیز ہوئی ہے۔
گزشتہ ہفتے، 7 اگست کو، ملک میں ‘قومی ہتھ کرگھا دن’منایا گیا۔ اس دن کو منانے کا مقصد ہمارے بنکروں اور ان کی مصنوعات کا احترام کرنا ہے۔ ہماری جدوجہد آزادی کے دوران، 1905 میں شروع کی گئی سو دیشی تحریک کی یاد میں، سال 2015 سے یہ دن ہر سال منایا جاتا ہے۔ مہاتما گاندھی نے بھارتی کاریگروں اور دستکاروں کے خون پسینے سے تیار شدہ اور ان کے بے مثال ہنر سے آراستہ مصنوعات کو فروغ دینے کے لیے سودیشی جذبے کو مزید مضبوط کیا تھا۔ سودیشی کا تصور ‘میک- ان- انڈیا’اور ‘آتم نربھر بھارت مہم’جیسے قومی اقدامات کو تحریک دیتا رہا ہے۔ ہم سب کو یہ عزم کرنا ہے کہ ہم اپنے ملک میں بنائی گئی مصنوعات خریدیں گے اور استعمال کریں گے۔
پیارے ہم وطنوں،
سماجی شعبے میں کیے گئے اقدامات سے تقویت پاتے ہوئے، جامع اقتصادی ترقی کی بنیاد پر بھارت 2047 تک ایک ترقی یافتہ معیشت بننے کے راستے پر گامزن ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ امرت کال کے اس دور میں، آگے بڑھتے جانے کے قومی سفر میں تمام شہری اپنی استطاعت کے مطابق زیادہ سے زیادہ تعاون دیں۔میرا ماننا ہے کہ معاشرے کے تین ایسے طبقے ہیں جو ہمیں ترقی کے اس راستے پر آگے بڑھائیں گے۔ یہ تینوں طبقےہیں-ہمارے نوجوان، خواتین اور وہ کمیونٹیز جو طویل عرصے سے حاشیے پر رہے ہیں۔
بالآخر، ہمارے نوجوانوں کو اپنے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے سازگار ماحول دستیاب ہیں۔ قومی تعلیمی پالیسی کے ذریعے طویل المدتی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ تعلیم کو زندگی کی اقدار سے اور مہارت کو روایت کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔ روزگار کے مواقع تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔صنعت کاری کی خواہش رکھنے والے لوگوں کے لیے حکومت نےسب سے زیادہ سازگار ماحول فراہم کیا ہے۔ نوجوان صلاحیتوں کی توانائی سے استفادہ کرکے، ہمارے خلائی پروگرام میں بے مثال توسیع ہوئی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ شبھانشو شکلا کی انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن کے سفر نے ایک پوری نسل کو بڑے خواب دیکھنے کی ترغیب دی ہے۔ یہ خلائی سفر بھارت کے آئندہ انسانی خلائی پرواز پروگرام ‘گگن یان’ کے لیے انتہائی معاون ثابت ہوگا۔نئی خود اعتمادی سے لبریز ہمارے نوجوان کھیلوں کی دنیا میں اپنی پہچان بنا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، شطرنج میں اب بھارت کے نوجوانوں کا جو غلبہ ہے، ایسا پہلے کبھی نہیں تھا۔ قومی کھیل پالیسی 2025 میں پنہاں وژن کے مطابق ہم ایسی بنیادی تبدیلیوں کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں، جن کے دم پر بھارت کھیل کود میں ایک عالمی سپر پاورکے طور پر ابھرے گا۔
ہماری بیٹیاں ہمارا فخر ہیں۔ وہ تحفظ اور سلامتی سمیت ہر شعبے میں رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہیں۔ کھیل -کود کو مہارت، بااختیاری اور صلاحیتوں کے اہم اشاریے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ورلڈ شطرنج چیمپئن شپ کے لیے ‘فیڈے ویمن ورلڈ کپ’ کا فائنل میچ، 19 سالہ بھارت کی ایک بیٹی اور 38 سالہ ایک بھارتی خاتون کے درمیان کھیلا گیا۔ یہ کامیابی، نسل در نسل، ہماری خواتین میں موجود عالمی معیار کی مستقل مہارت کو نمایاں کرتی ہے۔روزگار میں بھی صنفی فرق کم ہو رہا ہے۔ ‘ناری شکتی وندن ایکٹ’کے ذریعے، خواتین کو بااختیار بنانا، اب صرف ایک نعرہ نہیں رہا بلکہ حقیقت بن چکا ہے۔
ہمارے معاشرے کا ایک بڑا حصہ، درج فہرست ذات،درج فہرست قبائل، پسماندہ طبقہ اور دیگر برادریوں کے لوگوں پر مشتمل ہے۔ان برادریوں کے لوگ اب حاشیے پر ہونے کا ٹیگ ہٹا رہے ہیں۔ ان کی سماجی اور اقتصادی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے، فعال اقدامات کے ذریعے، حکومت ان کی مدد کرتی آرہی ہے۔
اپنی حقیقی صلاحیت کو حاصل کرنے کی راہ میں بھارت اب اور بھی تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہا ہے۔ ہماری اصلاحات اور پالیسیوں سے ترقی کا ایک موثر اسٹیج تیار ہواہے۔ اس تیاری کی بنیاد پر، میں ایک ایسے روشن مستقبل کا تصور کر رہی ہوں، جہاں ہم سب اپنی اجتماعی خوشحالی اور خوشیوں میں جوش و خروش کے ساتھ حصہ ڈال رہے ہوں گے۔
اس مستقبل کی جانب، ہم بدعنوانی کے تئیں عدم برداشت کی پالیسی اپناتے ہوئے، مسلسل اچھی حکمرانی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ اس تناظر میں، مجھے مہاتما گاندھی کی ایک اہم بات یاد آرہی ہے۔ گاندھی جی نے کہا تھا جسے میں دوہراتی ہوں:
“بدعنوانی اور دکھاوا، جمہوریت کے لازمی نتائج نہیں ہونے چاہئیں۔”
ہم سب یہ عہد کریں کہ گاندھی جی کے اس اصول کو عملی شکل دیں گے اور بدعنوانی کو جڑ سے ختم کریں گے۔
پیارے ہم وطنوں،
اس سال ہمیں دہشت گردی کی لعنت کا سامنا کرنا پڑا۔ کشمیر گھومنے گئے معصوم شہریوں کا قتل، بزدلانہ اور نہایت غیر انسانی تھا۔
اس کا جواب بھارت نے،فولادی عزم کے ساتھ، فیصلہ کن انداز میں دیا۔ آپریشن سندور نے یہ ثابت کر دیا کہ جب قوم کی حفاظت کا سوال سامنے آتا ہے تب ہماری مسلح افواج کسی بھی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے مکمل طور پر اہل ثابت ہوتی ہیں۔ واضح حکمت عملی اور تکنیکی مہارت کے ساتھ، ہماری فوج نے سرحد پار دہشت گرد ی کےٹھکانوں کو تباہ کر دیا۔ میرا یقین ہے کہ آپریشن سندور دہشت گردی کے خلاف انسانیت کی جنگ میں ایک مثال کے طور پر تاریخ میں درج ہوگا۔
ہمارا اتحاد ہی ہماری جوابی کارروائی کی سب سے بڑی خوبی تھی۔ یہی اتحاد ان تمام عناصر کے لیے سب سے سخت جواب بھی ہے جو ہمیں منقسم دیکھنا چاہتے ہیں۔ بھارت کے موقف کو واضح کرنے کے لیے مختلف ممالک میں گئے ارکان پارلیمان کے کثیرجماعتی نمائندہ وفود میں بھی ہمارا یہی اتحاد نظرا ٓیا۔ عالمی برادری نے، بھارت کی اس پالیسی کا نوٹس لیا ہے کہ ہم جارح نہیں بنیں گے، لیکن اپنے شہریوں کی حفاظت کے لیے جوابی کارروائی کرنے میں ہم بالکل بھی نہیں ہچکچائیں گے ۔
آپریشن سندور دفاع کے شعبے میں ‘آتم نربھر بھارت مشن’کی جانچ کا بھی موقع تھا۔ اب یہ ثابت ہو گیا ہے کہ ہم صحیح راستے پر گامزن ہیں۔ ہمارا دیسی ساختہ ساز و سامان اس فیصلہ کن سطح تک پہنچ گیا ہے، جہاں ہم اپنی بیشتر دفاعی ضروریات کو پورا کرنے میں خودکفیل ہو گئے ہیں۔ یہ حصولیابیاں آزاد بھارت کی دفاعی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز ہیں۔
پیارے ہم وطنوں،
اس موقع پر میں آپ سب سے درخواست کرنا چاہتی ہوں کہ ماحول کی حفاظت کے لیے ہر ممکن کوشش کریں۔ موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں خود میں بھی کچھ تبدیلیاں لانی ہوں گی۔ ہمیں اپنی عادات اور عالمی نقطہ نظر میں تبدیلی لانی ہوگی۔ ہمیں اپنی سر زمین، دریاؤں، پہاڑوں، پیڑ-پودوں اور جانداروں کے ساتھ اپنے تعلقات میں بھی تبدیلی لانی ہوگی۔ ہم سب اپنی شراکت داری سے ایک ایسا کرۂ ارض چھوڑ کر جائیں جہاں زندگی اپنے فطری انداز میں پروان چڑھتی رہے۔
پیارے ہم وطنوں،
ہماری سرحدوں کی حفاظت کرنے والے فوجیوں، پولیس اور مرکزی مسلح پولیس فورسز کی جانب میری توجہ بطور خاص جاتی ہے۔ میں عدلیہ اور سول سروسز کے اراکین کو بھی اپنی نیک خواہشات پیش کرتی ہوں۔
بیرون ملک موجود بھارتی سفارت خانوں میں کام کرنے والے بھارتی اہلکاروں اور غیر ملکی مقیم بھارتیوں کو بھی میری جانب سے یوم آزادی کی دلی مبارکباد!
میں ایک بار پھر آپ سب کو یوم آزادی کی مبارکباد پیش کرتی ہوں۔
شکریہ۔
جے ہند!
جے بھارت!