قربانی سنتِ ابراہیمی ہے، اور ہر صاحبِ استطاعت مسلمان پر لازم ہے کہ وہ قربانی کرے۔ یہ اللہ کی راہ میں ایک عظیم عمل ہے۔ عیدالاضحیٰ کے موقع پر علی گڑھ کی جمال پور کی منڈی میں خریداروں کا رش ہے۔ سنتِ ابراہیمی کی پیروی میں ملک بھر کی طرح علی گڑھ میں بھی بکرا منڈیوں میں گہما گہمی نظر آ رہی ہے۔ مارکٹ میں قربانی کے بکرے تو موجود ہیں، مگر قیمتوں نے خریداروں کے ہوش اُڑا دیے ہیں۔جو بکرا پہلے پندرہ، سولہ ہزار میں مل جاتا تھا، وہ اب چوبیس، پچیس ہزار سے کم کا نہیں۔
اس سال قیمتوں میں اضافہ
منڈی میں کچھ جانور ایسے بھی ہیں جو گھر پر پالے گئے ہیں، مگر بیوپاری شکایت کرتے ہیں کہ ان کو مناسب قیمت نہیں مل رہی۔بیوپاریوں کا کہنا ہے کہ جو گھر کا پالا ہوا بکرا ہوتا ہے۔ اس پر خرچ زیادہ ہوتا ہےپر مارکٹ ان کے دام کے حساب سے خریدار نہیں مل رہا ہے۔مہنگائی صرف بکرے کی قیمت تک محدود نہیں۔ چارہ، کرایہ، اور جانور کی خوراک میں بھی اضافہ ہوا ہے، جو قیمتوں کے بڑھنے کی بڑی وجہ ہے۔کچھ شہریوں کا کہنا ہے کہ یہ ، سنتِ ابراہیمی ہے، مہنگائی ہو یا سستا، قربانی تو کرنی ہی ہے۔
آگرہ کی بکرا منڈی
آگرہ کی مویشی منڈی میں شہر کی بکرا منڈی میں جہاں مختلف نسلوں کے خوبصورت اور طاقتور بکرے فروخت کے لیے لائے گئے ہیں، وہیں خریداروں کا جوش و خروش بھی دیکھنے لائق ہے۔شہریوں کی جانب سے قربانی کی تیاریوں میں تیزی آ گئی ہے۔ کپڑوں، سویوں اور دیگر اشیائے ضروریہ کی خریداری کے ساتھ ساتھ قربانی کے جانوروں کی تلاش بھی زور پکڑ گئی ہے۔
ہرسال 35 کروڑ کی تجارت
عیدالاضحیٰ کے موقع پر آگرہ کی مویشی منڈی میں ہر سال تقریباً 30 سے 35 کروڑ روپے کی تجارت ہوتی ہے، جس کا بڑا حصہ براہ راست دیہی علاقوں میں جانور پالنے والے کسانوں تک پہنچتا ہے۔
بقرعید اور ہندو مسلم اتحاد
رپورٹ کے مطابق، آگرہ کی بکرا منڈی میں 90 فیصد بکرے ہندو کسانوں کی جانب سے فروخت کے لیے لائے جاتے ہیں۔ اس بات کو لے کر شہری بین المذاہب ہم آہنگی اور قومی یکجہتی کی مثال قرار دیتے ہیں۔آگرہ کی مویشی منڈی نہ صرف قربانی کے جذبے کی نمائندگی کرتی ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ معاشی بہتری، بھائی چارے، اور اسلامی روایات کو بھی زندہ رکھے ہوئے ہے۔ ا
قربانی کا جذبہ برقرار
جمال پور ہو یا ملک کا کوئی اور شہر، عید قرباں کی تیاری بکروں کے بغیر ادھوری سمجھی جاتی ہے۔ قربانی کا جذبہ اگرچہ قائم ہے، مگر بڑھتی ہوئی مہنگائی نے سنتِ ابراہیمی ادا کرنا کئی خاندانوں کے لیے چیلنج بنا دیا ہے۔ لیکن پھر بھی لوگ مہنگائی کے باوجود بکرے خرید کر سنت ابراہیمی ادا کرنے میں مصروف ہیں۔ اور ہر شخص اپنی استطاعت کے مطابق سنتِ ابراہیمی کی پیروی میں مصروفِ عمل ہے۔