امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے تک پہنچنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ ایران اور امریکہ دونوں ممالک نے عمان کے دارالحکومت مسقط میں ہونے والی بالواسطہ ملاقات میں بات چیت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ یہ اس سلسلے میں پہلا قدم تھا۔
تاہم ایران کے سپریم لیڈر خامنہ ای نے جوہری معاہدے کے حوالے سے امریکی کی جانب سے پہلی تجویز پر تنقید کی۔ انہوں نے تبصرہ کیا کہ امریکی تجویز مکمل طور پر ان کے اقدامات کے خلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں 100 ایٹمی پاور پلانٹس ہونے کے باوجود ملک میں خوشحالی نہ ہونے کی صورت میں وہ بیکار ہو جائیں گے، انہیں دوبارہ فنڈنگ کے لیے امریکا کا رخ کرنا پڑے گا۔
تاہم خامنہ ای نے یہ نہیں کہا کہ انہوں نے امریکہ کے ساتھ جوہری معاہدے کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ اگرچہ جوہری معاہدے پر مذاکرات جاری ہیں تاہم امریکی تجویز کے بارے میں کوئی اطلاع جاری نہیں کی گئی۔ تاہم ایک نیوز ویب سائٹ کے مطابق امریکہ نے تجویز دی ہے کہ ایران اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ مل کر یورینیم کی افزودگی کے لیے ایک کنسورشیم بنائے۔ لیکن یہ دیکھنا باقی ہے کہ اس سے تہران کو کتنا نقصان پہنچے گا۔
تاہم دونوں ممالک کے درمیان معاہدہ ناکام ہونے کی صورت میں ایران کی معیشت جو پہلے ہی شدید مشکلات سے دوچار ہے، مزید تباہ ہونے کا خدشہ ہے۔ دوسری جانب مشرق وسطیٰ میں کشیدگی مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔ امریکہ کچھ عرصے سے ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ اس تناظر میں ٹرمپ نے ایک بار پھر جوہری معاہدہ کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔
حال ہی میں اس معاملے پر عمان میں اعلیٰ سطحی مذاکرات ہوئے۔ مذاکرات میں شریک امریکی نمائندے سٹیو وِٹکوف نے کہا کہ یہ مذاکرات تعمیری اور نتیجہ خیز رہے۔ ٹرمپ نے یہ بھی خبردار کیا کہ جوہری معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں فوجی کارروائی کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل بھی ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کا انتظار کر رہا ہے۔ امریکہ، جس نے پہلے ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ کیا تھا، ٹرمپ کے دور میں 2018 میں اس سے دستبردار ہو گیا تھا۔