• News
  • »
  • قومی
  • »
  • مالیگاؤں بم بلاسٹ: تمام ملزمین بے قصور ، تو کون ہیں ان مسلمانوں کے قتل عام کا ذمہ دار ؟

مالیگاؤں بم بلاسٹ: تمام ملزمین بے قصور ، تو کون ہیں ان مسلمانوں کے قتل عام کا ذمہ دار ؟

Reported By: Munsif News Bureau | Edited By: Sahjad Mia | Last Updated: Aug 01, 2025 IST     

image
مہاراشٹر کا ایک مسلم اکثریتی شہر مالیگاؤں 29 ستمبر 2008 کو اس وقت ہل گیا جب رمضان کے مقدس مہینے میں ایک مسجد کے قریب زور دار دھماکہ ہوا۔ ٹائر پھٹنے کی آواز کی طرح یہ کوئی معمولی دھماکہ نہیں تھا بلکہ یہ ایک بم دھماکہ تھا۔ یہ دھماکہ اس وقت ہوا جب لوگ نماز کے بعد مسجد سے نکل رہے تھے۔ اس دھماکے میں 6 افراد ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہوئے۔ اس حملے کی تحقیقات میں ہندو تنظیم پر دہشت گردی کے واقعے کو انجام دینے کا الزام عائد ہوا۔
 
مالیگاؤں بم دھماکہ کیس کی جانچ دو ایجنسیوں نے کی ہے۔ دونوں کی تفتیشی رپورٹس ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ پہلے انسداد دہشت گردی اسکواڈ (اے ٹی ایس) نے کیس کی تحقیقات کی اور پھر قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) نے اس کیس کی تحقیقات کی۔ 
 
کون تھے ملزمان؟
 
مالیگاؤں دھماکے کی جانچ مہاراشٹر اے ٹی ایس کے اس وقت کے سربراہ ہیمنت کرکرے کی قیادت میں ہو رہی تھی۔ اے ٹی ایس نے اپنی تحقیقات میں مالیگاؤں بم دھماکے کے لیے ہندو تنظیم ’ابھینو بھارت‘ سے وابستہ لوگوں پر الزام لگایا تھا۔ اے ٹی ایس نے بی جے پی لیڈر سادھوی پرگیہ، کرنل شریکانت پروہت، سوامی اسیمانند، سدھاکر دویدی، میجر (ریٹائرڈ) رمیش اپادھیائے، سمیر کلکرنی، اجے رہیرکر پر الزام لگایا تھا۔ اے ٹی ایس نے کہا کہ یہ تمام ملزمین بالواسطہ یا بالواسطہ طور پر ’’ابھینو بھارت‘‘ نامی ہندو تنظیم سے جڑے ہوئے تھے۔ 
 
اے ٹی ایس نے اپنی تحقیقات میں کیا دعویٰ کیا؟
 
اے ٹی ایس نے اپنی تحقیقات میں دعویٰ کیا تھا کہ دھماکے میں استعمال ہونے والی بائک سادھوی پرگیہ کی تھی اور اس میں دھماکہ خیز مواد نصب کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ کرنل پروہت پر الزام تھا کہ ان کے گھر پر دھماکہ خیز مواد تیار کیا گیا تھا اور پروہت نے دھماکہ خیز مواد تیار کرنے کے لئے آر ڈی ایکس کا انتظام کیا تھا۔ 
 
ملزمان کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا گیا:
 
بھارت میں پہلی بار سادھوی پرگیہ سنگھ کو دہشت گردی کے واقعے کو انجام دینے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی اس دھماکے کے تمام ملزمین کے خلاف یو اے پی اے اور آئی پی سی کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ اس تفتیش کے دوران ہیمنت کرکرے 26/11 ممبئی حملوں میں اپنی جان گنوا دی۔ خاص بات یہ ہے کہ ملزمہ سادھوی پرگیہ سنگھ کو بھوپال لوک سبھا سے بی جے پی نے ٹکٹ دے کر لوک سبھا بھیج دیا۔ 
 
این آئی اے نے جانچ میں کیا کہا؟
 
2011 میں، این آئی اے نے اس معاملے کی جانچ اپنے ہاتھ میں لی۔ این آئی اے نے اے ٹی ایس کی جانچ پر سوال اٹھائے۔ این آئی اے نے کہا کہ ثبوت ناکافی ہیں اور سازش ثابت نہیں ہوتی۔ 2016 میں این آئی اے نے سادھوی پرگیہ اور کچھ دیگر ملزمین کے خلاف مکوکا کی دفعات ہٹا دی تھیں۔ این آئی اے نے یہ بھی کہا کہ اس بات کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے کہ بم کہاں بنایا گیا تھا اور کس نے نصب کیا تھا۔ 
 
این آئی اے عدالت نے اپنا فیصلہ سنایا:
 
مالیگاؤں دھماکے کے 17 سال بعد اب خصوصی این آئی اے عدالت نے  (31 جولائی 2025) اپنا فیصلہ سنایا ہے۔ اس فیصلے میں عدالت نے کہا کہ اے ٹی ایس کی جانچ میں بہت سی خامیاں ہیں۔ ساتھ ہی، این آئی اے کی طرف سے کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیا گیا، جس سے ملزم کو قصوروار ثابت کیا جا سکے۔
 
عدالت نے تمام ثبوت مسترد کر دیے!
 
این آئی اے کی خصوصی عدالت نے کہا کہ بم بنانے یا نصب کرنے کا کوئی خاطر خواہ ثبوت نہیں ہے اور نہ ہی کسی ملاقات یا سازش کی تصدیق ہوئی ہے۔ وائس ریکارڈنگ، موٹر سائیکل کی ملکیت، آر ڈی ایکس کی ریکوری، عدالت نے ان تمام الزامات کو مسترد کر دیا۔ 
 
عدالت میں 323 گواہان پیش ہوئے:
 
عدالت نے ان تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے مالیگاؤں دھماکے کے تمام ملزمین کو بری کر دیا ۔ بتادیں کہ عدالت میں کل 323 گواہان پیش ہوئے جن میں سے 35 سے 39 گواہ منحرف(پلٹ) ہو گئے۔ 
 
کیا مسلمانوں کو انصاف ملا؟
 
مسلم کمیونٹی اور متاثرہ خاندان اس فیصلے سے مایوس ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں انصاف نہیں ملا۔ متاثرین سوال کر رہے ہیں کہ جب یہ ساتوں ملزم مالیگاؤں دھماکے کے مجرم نہیں ہیں تو پھر اس دھماکہ کا قصوروار کون ہے؟ مظلوموں کو انصاف کب ملے گا؟
 
یاد رہے کہ مالیگاؤں بم دھماکہ 29 ستمبر 2008 کو ہوا تھا۔جس میں کل 7 لوگ ملزم تھے، جن کے نام ہیں بی جے پی لیڈر سادھوی پرگیہ، کرنل شری کانت پروہت، سوامی اسیمانند، سدھاکر دویدی، میجر (ریٹائرڈ) رمیش اپادھیائے، سمیر کلکرنی، اجے راہرکر۔ اسکے علاوہ مالیگاؤں بم دھماکے کی تحقیقات پہلے انسداد دہشت گردی اسکواڈ (اے ٹی ایس) نے  کی اور پھر اس معاملے کی جانچ قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے)نے کی۔