Sunday, June 15, 2025 | 19, 1446 ذو الحجة
  • News
  • »
  • علاقائی
  • »
  • تلنگانہ کانگریس کے اندرونی اختلافات ایک بار پھر منظرعام پر

تلنگانہ کانگریس کے اندرونی اختلافات ایک بار پھر منظرعام پر

Reported By: Munsif TV | Edited By: Mohammed Imran Hussain | Last Updated: Jun 14, 2025 IST     

image
تلنگانہ کانگریس کے اندرونی اختلافات ایک بار پھر منظرِ عام پر آگئے ہیں۔ خصوصاً حیدرآباد کے حلقہ اسمبلی خیرت آباد  کےاجلاس کے دوران نہ صرف پارٹی قائدین کے درمیان کھلم کھلا  لفظی جھڑپ دیکھنے میں آئی۔ بلکہ مسلم قائدین کو نظر انداز کیے جانے کا سنگین الزام بھی لگایا گیا۔ خیرت آباد میں منعقدہ کانگریس کارکنان کے اس اجلاس میں زہرہ نگر سے تعلق رکھنے والے مقامی کانگریس لیڈر قادر نے کھل کر الزام عائد کیا کہ پارٹی میں مسلمانوں کے لیے کوئی جگہ نہیں چھوڑی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اجلاس کے دوران مسلم نمائندوں کو بولنے کی اجازت تک نہیں دی گئی۔ یہ الزام اُس وقت سامنے آیا جب اجلاس میں ڈاکٹر سی روہن ریڈی، سابق وزیر دانم ناگیندر، جی ایچ ایم سی میئر وجیے لشکمی  اور دیگر اہم لیڈران موجود تھے۔
 
اجلاس کے دوران دانم ناگیندر اور کارپوریٹر وجیا ریڈی کے حامیوں کے درمیان شدید نعرہ بازی دیکھنے کو ملی۔ ایک دوسرے کے خلاف لگائے گئے نعروں سے ماحول کشیدہ ہو گیا، اور اجلاس بدنظمی کا شکار ہو گیا۔ پارٹی نظم و ضبط کی دھجیاں اڑنے پر ڈی سی سی صدر ڈاکٹر روہن ریڈی ناراضگی کے عالم میں اجلاس چھوڑ کر چلے گئے۔اس صورتحال  سے تلنگانہ کانگریس میں جاری گروہ بندی اور اقلیتوں کو نظرانداز کیے جانے کی بڑھتی شکایات واضح ہوئی ہیں۔
ورنگل کے اقلیتی  قائدین کی پریس کانفرنس
تلنگانہ ریاستی کابینہ میں کسی بھی مسلم قائد کو شامل نہ کیے جانے پر کانگریس کے سینئر قائدین نے شدید برہمی کا اظہار کیا ہے۔ ورنگل میں کانگریس پارٹی  کے سابق ضلع نائب صدر اور آل انڈیا پرینکا راہول گاندھی فورم کے سکریٹری ایم اے باسط طاہر اور کانگریس ورنگل ایسٹ کے متحرک رہنما ثناء اللہ خان مجاہد نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب  کیا۔ اور ریاستی حکومت کی پالیسیوں پر سخت تنقید کی۔
 
ان کا کہنا تھا کہ تلنگانہ میں مسلم ووٹ بینک ہمیشہ کانگریس کے ساتھ رہا، لیکن موجودہ کابینہ میں کسی بھی مسلم قائد کو وزارت میں شامل نہ کرنا انتہائی افسوسناک ہے۔ اگر یہ ناانصافی دور نہ کی گئی تو آنے والے لوکل باڈی انتخابات میں پارٹی کو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ان قائدین نے جس کی جتنی آبادی، اُس کی اتنی حصہ داری کا حوالہ دیتے ہوئے سوال کیا کہ کیا یہ وعدہ صرف انتخابی جلسوں تک محدود تھا؟ محبت کی دکان میں اگر مسلمانوں کو نظرانداز کیا گیا تو یہ دوکان بند ہو سکتی ہے۔
 
سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہےکہ ریاستی کابینہ میں کسی بھی مسلم لیڈر کو شامل نہیں کرنے پر پہلے ہی کانگریس کے اقلیتی قائدین ناراض ہیں۔ اورآنے والے دنوں میں جی ایچ ایم سی اور   بلدیات کےالیکشن ہونے ہیں۔ ایسے میں مسلمانوں کی ناراضگی  کانگریس کو بھاری پڑ سکتی ہے۔